افروز عنایت
کام والی ماسی کےساتھ اس کی دس بارہ سال کی بیٹی بھی آئی، کہنے لگی۔۔۔ باجی میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔اس کوساتھ لائی ہوں۔
تھوڑی مدد کرلے گی۔میں نے پوچھا اس کو کام تو آتا ہے نا؛؛ جواب دیا ہاں باجی سب کام کر لیتی ہے؛؛ خیر جی میں نےہامی بھر لی،لیکن میں نے دیکھا وہ بالکل اناڑی تھی۔ اسی لئے ماں نے بھی ہاتھ ہلکا رکھا۔ اگلےدن ماسی خود غائب تھی ،اس کی وہ بیٹی اکیلی آئی۔ کہا کہ امی ابھی تھوڑی دیر میں آجائے گی۔ اب میراامتحان تھا کل توماں نےاسے ہلکا سا کام دیا تھا، آج سارا کام اورپھر نہ پوچھیں مجھ سےلیکن میں نے بڑے صبروتحمل سے کام لیا۔ اگرچہ میراہمیشہ لو رہنے والا بی پی ہائی ہوچکا تھا لیکن میں نے صبر کا دامن ہاتھ سےنہ چھوڑا بلکہ مسلسل اس کی حوصلہ افزائی کرتی آرہی تھی کہ شاباش بیٹا آپ توکر سکتی ہو جلدی سیکھ جاؤگی شاباش۔۔ میرے شوہرمیری یہ کیفیت دیکھ کر جل بھن رہےتھےکہ تمہاراس نرمی کی وجہ سے تمہیں لوگ بیوقوف بناتےہیں۔
یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اسےمستقل میرے پاس چھوڑ دیا گیاحالانکہ مجھے بھی مجبوراً اس کے ساتھ مل کرکام کرنا پڑ رہا تھا ۔آخرمیں نے جب ایک دن اس کی ماں کوبلوا کرساری بات بتائی تو رونے لگی باجی بیوہ، غریب عورت ہوں اسے کوئی رکھنے کے لئے تیار نہیں ۔ بہت مارتی بھی ہوں لیکن اس کی یہ حالت ہے۔ باجی آپ کی بڑی مہربانی ہوگی کہ اسے آپ کام پررکھ لیں میں بھی کل سے اس کے ساتھ آجاوں گی۔ مجھے اس عورت پررحم آگیا ۔ اب اس کی ماں کی اس حالت کو دیکھ کر میں نہ صرف اسے برداشت کر رہی ہوں بلکہ اس کی ہمت افزائی کرکے کچھ سکھا بھی رہی ہوں۔
اس ساری صورتحال کو بیان کرنےکا مطلب آپ سمجھ گئے ہوں گےکہ بعض اوقات ہمیں کہیں نہ کہیں کسی مجبور کی تکلیف پر خود بھی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے ۔یقیناً میرا رب بھی اس چیز کو پسند کرتا ہے۔