افروز عنایت
لڑکی چاہےغريب ہویا امیرشادي کےبعد اپنے سسرال میں کتنی ہی خوش کیوں نہ ہو اسے میکےکی یاد آتی ہے۔ ہاں باپ ،بہن ،بھائی سارے پیارے
رشتے چھوڑ کر سسرال پہنچتی ہے۔ خوب صورت یادوں کی پوٹلی لےکروہاں کا سادہ کھانا ہویا غربت کی تکلیف ہو اس کے باوجود وہ میکے کی ٹھنڈی چھاؤں کوبھول نہیں سکتی۔ کسی غلطی پرماں کی ڈانٹ ڈپٹ میں بھی چھپا ہواپیاراس کی تربیت کاسامان تھاجو سسرال میں اب کام آئے گا۔ ان سارے خوب صورت لمحوں سےاسے اپنےآپ کو باہر نکالنے میں وقت درکار ہوتا ہے،وہ آہستہ آہستہ نئے لوگوں اور نئےماحول میں ایڈجسٹ ہوپاتی ہے، لہٰذا اسےسسرال والوں کو تھوڑا وقت دینا چاہیے۔
ایک لڑکی جوشادی سے پہلے ماں باپ کا ساتھ دینےکے لئے ملازمت کرتی تھی شام چھ بجے جب گھر پہنچتی تو نماز پڑھ کر سوجاتی ہے ۔ دو گھنٹے آرام کرکےاٹھتی ہے تو ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھاتی ہے ۔چھٹی والے دن ماں اسےصبح تھوڑا دیرسے آٹھاتی کہ آج وہ تھوڑا آرام کرلے۔پھرباقی چھٹی کا دن وہ گھرکے سارے کام کرتی ہے۔ سسرال والےملازمت پیشہ بہو ہی چاہتےتھے اس لئے رشتہ طے ہوگیا۔ شادی کے بعد جب اس نے ملامت پرجانا شروع کیا تو گھر میں کسی نے بھی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا لیکن دو دن کے بعد ساس نےکہا شام کو گھر آکررات کا تمام کھانا تمہیں بنانا ہوگا۔ چھٹی کے دن بھی صبح سویرے آٹھ کرسب گھر والوں کے لیے ناشتہ بنانا ہوگاجبکہ وہ گزشتہ دوسال سے ملازمت کر رہی تھی وہاں ٹھنڈی چھاؤں میں اسےمکمل آرام حاصل تھا۔ سسرال میں یہ صورتحال اس لڑکی کے لیےناقابل برداشت تھی لہٰذا اسےملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا ۔
میکے میں ماں خود کوتکلیف میں رکھ کر بیٹی کوآرام پہنچا رہی تھی جبکہ سسرال میں اتنی جلدی کم مدت میں ایسا ہونا ممکن نہ تھا ہاں ساس اپنےمثبت رویے سےاسےگھر کے کاموں کی طرف آہستہ آہستہ مائل کرتی تو یقیناً سیٹ ہوجاتی۔ مجھے ایک بچی نے کہا کہ میکے میں رہنے والے تمام رشتے لڑکی کوسکھ دیتے ہیں جبکہ سسرال ایسا نہیں ہوتا۔
میں نے کہا کہ وہاں ماں ہوتی ہےاس کی ڈانٹ میں بھی پیارچھپا ہوتا ہے۔سختی میں بھی نرمی کی چاشنی محسوس ہوتی ہے۔اسی لیےاسے سسرال میں پاؤں جمانے اور اپنے لئے جگہ بنانے کو وقت درکار ہوتا ہے۔ گھر سے نکلتے ہی اولے پڑے تو برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
بیشک میکے میں لڑکی کو لاکھ سکھ ملے لیکن لڑکی کی ماں اسےسسرال میں بھی اپنے لئےجگہ بنانے کے لئےگرسکھاتی ہےجس سے وہ اس نئے گھرمیں اپنا مقام بناسکتی ہے لیکن بعض جگہ ایسا مشکل ہوتا ہے لیکن ایک بات ذہن نشین ہونی چاہیےکہ میکے جیسی ٹھنڈی چھاؤں کہیں نہیں مل سکتی ہے۔ بے لوث محبت کرنے والے ماں باپ جو خود تکلیف میں رہ کر اپنی بیٹیوں کو ذہنی سکون دیتے ہیں۔
رب العزت سب کےماں باپ کوسلامت رکھےلیکن ہرایک کواس دنیا سے جانا ہی ہوتا ہے پھریہ فریضہ بھائی انجام دیتے ہیں۔میکے میں وہ(بھائی) بہنوں کا اسی طرح خیرمقدم کرتے ہیں۔ اکثر فون پر ان کا حال احوال معلوم کرتےرہتےہیں۔ بھائیوں کےاس حسن سلوک سےماں باپ کی کمی توپوری نہیں ہوتی لیکن لڑکی چاہیےسسرال میں کتنی ہی سکھی کیوں نہ ہومیکے والوں کی طرف سےاسے ایک ڈھارس اور سپورٹ ملتی ہےجو ان کے لئے ٹھنڈی چھاؤں کا نعم البدل ہوسکتا ہے۔ رب العزت یہ ٹھنڈی چھاؤں بچیوں کے ساتھ ہمیشہ قائم رہے۔ آمین یا رب العالمین