لطیف النساء
کتنا آسان ہو گیا ہےیہ کہنا کہ آئی ڈونٹ مائنڈ!یاآئی ڈونٹ کیئر!صائمہ نجم نے ایک فارورڈ ڈ پیغام میں بڑی اچھی بات سمجھائی کہ بچوں کو آداب
اور اخلاق سیکھائیں کیونکہ دین سراسراخلاق ہے اورہمیں اس کی پاسداری کرنی چاہئے۔ بچوں سے ہمیشہ گھلے ملے رہیں۔ ان کو کوالٹی ٹائم دیں،ان کے ساتھ کھیلیں،ان کے معاملات میں شیئرنگ، کیئرنگ ہویعنی ساتھ رہ کر ان میں رول ماڈلز اور اپنے اندازسے ان میں لاشعوری طورپر تہذیب تمیزسرایت کروانا ہے۔
بچوں کی سرشت میں شروع سے یہ بات ڈال دیں کہ ادب و آداب کیاہوتے ہیں۔ کن سےملنا ہے؟کیسے ملنا ہے؟ کیسے بیٹھنا ہے۔ کیسے جملے بولنے ہیں۔ اُن نوجوانوں کو کسی طرح اہمیت دیں۔ خاص کرٹین ایجرزاپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنے لگتے ہیں کیونکہ وہ جسمانی طور پربڑے لگتے ہیں لیکن وہ معصوم ہوتے ہیں۔ میں اور میری مرضی چلاتے ہیں۔ہروقت انہیں ان کی مرضی پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ جہاں ضروری ہے ان کو اعتماد میں لیں۔ ذمہ داری ڈالیں، دوست احباب رشتہ داروں سے کیسے بات کرنی چاہئے۔ مہمان آئیں تو کیسے انہیں عزت کے ساتھ ملیں۔ اچھے جملے بولیں عزت سے بٹھائیں خوشی کا اظہار کریں۔ ان کی عزت کریں۔ یہ باتیں زبانی کہنے سے نہیں آتیں اپنے رول ماڈل سے انہیں سیکھائیں۔والدین ہی انہیں لوگوں کا،رشتوں کی اہمیت کا احساس دلائیں، پیارمحبت کا، کام کا،رشتوں کا تقدس سیکھائیں۔ جانے انجانےکے ساتھ ادب تمیز سےبات کرنا کسی کے گھرجائیں تو بچے بڑوں سے کیسے ملنا ہے ۔ کوئی گھر میں بزرگ آئیں سلام کروائیں۔ اچھی طرح ملیں ،عز ت سے بٹھائیں عزت و تو قیرکریں ، پھر بھلے کام ہو تو اجازت لے لیں۔ پھر بھلے اپنے کاموں میں مصروف ہوجائیں اس سے بڑاخوشگوارماحول ہو جاتا ہےیہ کیا کہ جی کہیں گے ۔ اپنے موبائل میں لگے ہیں ۔ پروا ہی نہیں۔ کوئی گھر آئے تو کسی کو کسی کی پروا ہی نہیں۔ بچے جو چاہے کرتے ہیں کمرے سے نہیں نکلتے ملتے نہیں اور والدین بجائے احساس دلانے کہ الٹا کہتے ہیں۔ پڑھ رہا ہے،سو رہا ہے، گیمز میں مصروف ہے وغیرہ وغیر ہ اس کاموڈ نہیں ہے۔ ارے کیسےموڈ نہیں؟ جب وہ ملیں گے ہی نہیں تو کیا سمجھیں گے؟ جب وہ توجہ ہی نہ دیں گے تو دوسروں کی توجہ کیسے لے جائیں گے؟ کمرے سے باہر ہی نہ آنا۔ کسی بھی طرح کے مہمان سےملیں خوشی کا اظہار کرنا، ٹوٹلی نظر انداز کرنا، مہمان کی عزت توقیر میں کمی آ جاتی ہے اور جب مہمان جو رحمت ہے وہی خوش نہ ہو تو اس گھر میں جانے کا کیافائدہ؟ والدین چاہے زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں ،ان کے رشتے داروں کو اہمیت دیں عزت دیں۔ ایک خاندان کو ٹائٹ رکھنے کیلئے یہ سب چیزیں ضروری ہیں۔
آپ کہہ نہیں سکتے کہ آئی ڈونٹ کیئر! رشتوں کی اہمیت، انسانوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے؟ یہ کوئی فارمیلٹی نہیں، یہ ایک خوشی کا احساس ہے ایک محبت کا رویہ ہے، جذبہ ہے، دکھ سکھ کوسمجھنے کا طریقہ ہے۔ ورنہ احساس مردہ ہوجا جاتا ہے۔ یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو سکھائیں ورنہ میں اورمیری مرضی نہیں چلےگی یہ تو خود غرضی ہو گی! رشتوں کی برتری کو بر قرار رکھنے کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ورنہ اس کی کمی سے رشتوں کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔دکھ درد کو سکھ کو سمجھنے کے قابل نہ ہوں گے۔ اخلاقی رویوں کا بر قرار رکھنا، ہر چیز میں اس کا خیال رکھنا، رکھوانا ہی ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔
میاں بیوی بھی کھنچے کھنچے رہیں گے تو زندگی بھی روکھی سوکھی ہوگی۔ تشدد، بغض، غصہ، غیبت ان سب سےدُور رہنا،مطلبی نہ رہنا یہ ایک رویہ بن جاتا ہے۔ اس طرح یہ پورے معاشرے کا رویہ بن جاتا ہے۔ پس ہمیں اچھے اخلاق کو اپنانا، دوستی اورخلوص کو پروان چڑھانا ہی زندگی کا اصل حسن ہے۔ یہی رشتوں کو بر قرار رکھنے اور ایک قوم کو ٹائٹ رکھنے کیلئے ضروری ہے۔آپ کو ذرا کچھ نہیں پتا کہاں گئے کس سے ملے؟ کون آیا کون گیا؟ کس کا کیا رشتہ ہے، یہ احساسِ زندگی اور تہذیب ہے۔
یہی زندگی کے طور طریقے ہیں،بہت ضروری چیزیں ہیں۔ جب ملیں گے جلیں گے تو ضروریات کا احساس ہوگا! شیئ نگ ہوگی ،کیئر نگ ہوگی ، یہی اصلی محبت ہے اور پر خلوص اور پرسکون زندگی اور خوشگواررویہ ہوگا جو اسلامی معاشرے کا شعارہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے ہمیں اس ماحول کیلئے پہلے خود کوہی رول ماڈل بننا ہوگا۔ آج کل یہ سب چیزیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ مطلب پرستی برائی ہے اوربرائی کبھی بھی معاشرے کو حسن نہیں دے سکتی۔ پس ہمیں اچھے رویئے اختیار کرنا، دوستی اورخلوص کو پروان چڑھانے کیلئے خود کو رول ماڈل بننے کی ضرورت ہے۔ غلطیاں ہوتی ہیں مگر سدھار بھی ہمیں ہی کرنا ہے۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ یہ مستقبل ہمارے اپنے اچھے پاکیزہ اور بے غرض بے لوث محبتوں سے پروان چڑھے تو کیا بات ہے۔