لطیف النساء
زندگی توموت کی امانت ہے کہتےہیں موت انسان کے پیچھے ایسے لگی ہوتی ہے جیسےانسان رزق کے پیچھے! زندگی یقیناً ایک امانت ہے اوراتنی
مختصر کہ ادھر اذان ہوئی ادھر نماز یعنی ہمارے پاس بس وضو کا وقفہ ہے یاسمجھیں کہ
رُکے رُکے سے چند قدم اور زندگی کا سفر ختم
ہم وضو بھی کر نہ پائے تھے لوگ پڑھے چلے فاتحہ قل ختم
لیکن اللہ نے تو زندگی سےہی ہمیں حیات کمانے کیلئےبھیجا ہےکہ زندگی میں کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے اور واپسی میں اپنےساتھ کیا لانا ہے؟ انسان اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے پھر بھی اسے اچھے برے کی تمیز فطرت سے ملی ہوتی ہے اور وہ اچھے برے میں تمیز کرکے سب سے لمبی شاہراہ " شاہراہ مستقیم "پرچل سکتا ہے۔ بارہ سال کے بعد جب بندہ شعوری طورپردنیا کو اور اس کی حقیقتوں کو سمجھنے لگتا ہے، تب سے تو اس کا پکا پکا حساب ہونے لگتا ہے۔اب اس پر جزا سزا واجب ہو جاتی ہے کیونکہ اُسےفطرت ِسلیم دیکر بھیجا گیا ہے اس کی راہنمائی کیلئے ہی ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے اور آخر میں آپ ؐ کی زندگی گویا آپ کی شریعت بھی آپ کی رہنمائی کیلئے عطا کی گئی۔
شکر الحمد اللہ ۔۔۔ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں تویہاں قرآن کریم گویا ضابطہ حیات اورشریعت کا اہم کام دیکر بھیجا گیا ہےتو ہم کدھربھٹک گئے؟جائزہ لیں۔ دنیا نےاتنی ترقی کرلی ہے مگر در اصل اس نے زوال اختیارکیا ہوا ہےجبھی ایک دوسرے کےجانی دشمن بنےہوئے ہیں۔ اتنے بےحس اوربے ضمیر کے ظلم کو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں مگرحوصلے سے روکنے سے کیوں قاصر ہیں؟
کیوں دشمن کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے؟یہ ایجادات سائنس اور ٹیکنالوجی تو انسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے ایجاد کی جاتی ہے تا کہ زندگی آسان بے خوف اور پر سکون ہو لیکن آپ خود سوچیں چھری چاقو اس کیلئے ایجاد کی گئی تاکہ کام آسان ہو۔ سیب پیاز دیگر ضروری اشیاء بڑی چھوٹی کتنی آسانی سےکٹ جاتی ہیں اس کا فائدہ ہے مگر یہ کیا؟ اس کو اگر گلا کاٹنے، بندوں کے ہاتھ پیر کاٹنے، جان لے لینے چُھرا گھونپ دینے کیلئے اگر استعمال کیا جائے تو یہ اسکا کتنا غلط استعمال ہےبالکل اسی طرح اسرائیل کتنے دھڑلےسے نہتے مسلمان فلسطینیوں پر مہینے بھر سے بم برسائے جا رہا ہے تو لوگ کیوں تماشا بنے ہوئے ہیں؟
کیوں ان درندوں کو کوئی نہیں روکتا اور اسرائیل کی اس جنونیت کا منہ توڑ جواب دیتا؟ اتنے دنوں سے بمباری کرکے وہ سمجھتا ہے جیت جائے گا؟ یہ تو پوری دنیا کے فسادی مجرم ہیں!ہر گز نہیں ظلم آخر ظلم ہے سر چڑھ کر بولے گا۔ کتنے معصوم بچے جیسے پھول!آسمان کے ستارے! انہیں رحم نہیں آتا کیسے بری طرح زخمی ہو رہے ہیں، چیخ رہے ہیں چلارہے ہیں، مر رہے ہیں۔
بم برسانے والوں کے ہاتھ نہیں ٹوٹتے؟ ان کےبچے نہیں، ماں بہنیں نہیں، ضعیف اور بیماراُن میں نہیں،کیا وہ ایسا سلوک خود برداشت کر پائیں گے؟ میری کزن نے ایک دل کو چھو لینے والی بچوں کیلئے ایک اعزازی نظم بھیجی، واقعی ضرور جنت میں ان ہی نہتے معصوموں کیلئے ایک شہر ہوگا"غزہ " نام کا پڑھ کر اُن کے حالات دیکھ کر صبر سا آگیا۔ اس لیے چاہتی ہوں سب ماؤں باپوں کو بھی سکون آجائے کیونکہ ہمیں اور ان تمام بچوں کو بہر حال اک دنیا کو چھوڑ جانا ہے کوئی بھی یہاں رہنے والا نہیں لہٰذا آخرت کا وہ گھر یقینا عظیم ہوگا انشا ء اللہ! ہمیں اللہ پر بھروسہ اور یقین ہے کہ ان فلسطینیوں کی جانیں کبھی رائیگاں نہ جائیں گی کیونکہ
مجھے یقین ہے جنت میں بھی
ایک بستی کا نام غزہ ہوگا
ہوں گے اس میں مکیں سب اعلیٰ سب سے جدا
خدا نے فقط فلسطینی بچوں کو وہاں بسا رکھا ہوگا
ہاں جنت میں بھی ایک بستی کا نام "غزہ"ہوگا
یہ معصوم اپنے لہو سے دے رہے ہیں گواہی
ہم مررہے تھے کوئی بولتا نہ تھا
اقوامِ عالم سے لیکر،مسلمانان عالم تک
سب چپ تھے ظالم کو کوئی روکتا نہ تھا
مجھے یقین ہے جب حشر بپاہو گا! منصف کے سامنے
ایک طرف یہ بچے د وسری جانب سارا عالم کھڑاہوگا
معتبر ہوگی بس یہ گواہی اور فیصلہ ہو گا
ہاں جنت میں اک بستی کا نام غزہ ہو گا