باب چہارم
عریشہ اقبال
چلیں اس بات کو بھی چھوڑیے آپ یہ بتائیے میں آخر آپ سے دوستی کروں بھی تو کیوں؟"" یہ تو آپ کو دوستی آزمانے کے بعد ہی معلوم
ہوسکے گا کہ آیا یہ دوست میری زندگی میں کیوں اور کس لیے آیا ہے ۔ عائزہ نے دیوار پر ٹک ٹک کرتی گھڑی کو ایک نظر دیکھا اور کہا کہ:" وقت خاصا زیادہ ہوچکا ہے، اب ہمیں چلنا چاہیے" نوفل نے مسکراتے ہوۓ اس سے کہا کہ" پہلے دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہے ، یا رد کردینا ہے اس بات کا جواب دے دیجیے ۔عائزہ کو دراصل جس چیز نے متاثر کیا تھا وہ اس شخص کا اعتماد تھا ۔ اس کی زندگی میں وہ واحد شخص تھا جو اس کے سوالات کا جواب انتہائی پر اعتماد انداز میں دے رہا تھا کیونکہ عائزہ ایک ایسی لڑکی تھی جو اچھے خاصے شخص کو گھما کر رکھ دے ۔اس نے نوفل کی جانب سے دوستی کی پیشکش کوقبول کرلیا ۔ یہاں سےعائزہ کی زندگی ایک نئے دور میں داخل ہونے والی تھی ۔اور وہاں فاطمہ اسلام کے نور اور صبغت اللہ کو لوگوں کے دلوں کی زینت بنانے کے ساتھ ساتھ روح کی پاکیزگی کا سامان کرنے میں مصروف عمل تھی۔
اس رات تقریباً 4:00 بجے فاطمہ کی آنکھ تہجد کی نماز کے لیے کھلی وہ اپنے قدم بستر سے نیچے رکھ کرسردی کی ان ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں یخ بستہ فرش پر اپنے اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتی ہوئی کھڑی ہوئی اور حمد و ثنا کے الفاظ کہتی وضو خانے کی جانب بڑھنے لگی۔ فاطمہ کے ہمراہ درخت،آسمان،اور اس کائنات کا ہر ذرہ اپنے خالق کی حمد و ثنا میں مصروف تھا۔جاۓ نماز فرش پر بچھا کر دل اور روح دونوں ہی اطمینان و سکون کی کیفیت کے ساتھ ساتھ نور سے منور تھے اس نے تکبیر کہی اور اپنے رب سے باتیں کرنے میں مشغول ہوگئی ۔اس کے نزدیک زندگی کا ایک ایک لمحہ جو وہ گزار رہی تھی کسی گولڈن چانس کی مانند تھا، جسے وہ تا حیات اپنے رب کی محبت اور اس کے رنگ کو پختہ کرنے اور دنیا کے ہر کونے میں بکھیرنے کی کوشش میں صرف کردینا چاہتی تھی۔
یہی تو فرق تھا عائزہ اور فاطمہ کی زندگی میں ! فاطمہ روح کی پکار سن کر اسے آباد کررہی تھی جبکہ عائزہ روح کی پکار کو ان سنی کیے غفلت میں تھی یا شاید اس کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا شخص آیا ہی نہ تھا جس نےاسے روح کی جانب متوجہ کیا ہو۔اسے تو بس نفس کی لذت اور اس کی تسکین کا سامان کرنے والے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا ۔
اس نے نماز ختم کرکے سلام پھیرا اور عشقِ حقیقی اپنے وجود میں سموۓ دعا کے لیے بارگاہ الٰہی میں اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاۓ اور کہا ؛ " اے میرے رب اور تمام مخلوقات کے رب !! جن و انس،چرند پرند ،نہروں ،وادیوں ان ساری چیزوں کو تخلیق کرنے والے رب جلیل اور بے انتہا محبت رکھنے والے میرے اللہ بے شک تیرا ہی فرمان ہے کہ: " ہم نے کسی انسان کے دو دل نہیں بناۓ" تو نے یقیناً میرے بھی اپنے فرمان حقیقی کے مطابق دو دل نہیں بناۓ ہیں میرے دل میں عائزہ بنت رانا خاور کی محبت کو تو نے ہی ڈالا ہے اور بے شک تیرے علم سے کوئی شے پوشیدہ نہیں تو میری فکر،میرے احساسات،میرے جذبات نیز میری ہر بات کو جانتا ہے ۔اس سے اس طرح واقف ہے جس طرح کوئ بھی نہیں ، میں جس ناچیز کا نام فاطمہ ہے تجھ سے دعا گو ہوں اور ہمیشہ کی طرح اس احساس کو لیے ہوئے تجھ سے مخاطب ہوں کہ جب حضرت ابرہیم علیہ السلام نے تجھ سے دعا مانگی تھی تو ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ کر کبھی محروم نہ رہا ،اسی طرح میں بھی تجھ سے دعا مانگ کر کبھی نامراد و محروم نہیں ہوئی ۔ تیری قدرتیں،تیرے اختیارات کا مشاہدہ صبح و شام ان آنکھوں سے کرتی ہوں ۔اے میرے پیارے اللہ تعالیٰ عائزہ کو اتنا حسین بنایا ہے اس کی زندگی کو یوں ضائع نہ ہونے دینا اس کا دل اپنی اطاعت کی جانب پھیر دیں اور مجھے بھی ہدایت عطا فرمائیں کہ ہدایت بغیر مانگے نہیں ملا کرتی الا یہ کہ جو تو چاہے جب تو کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو بس کہتا ہے کہ "کن" ( ہوجا) اور وہ چیز ہوجاتی ہے ۔
عائزہ کے پلٹنے پر بھی "کن" کہ دیں ، آمین کہتے اور اپنی آنکھوں سے موتیوں کی لڑیوں کو ہاتھوں کے اندر جذب کرتے ہوۓ چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہی اپنے قلب کو سکون ملتا محسوس کرتی جاۓ نماز سے کھڑی ہوئی اور دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ کھڑکی سے آسمان کو دیکھنے لگی جیسے امید کی کرن نمودار ہوتی ہے۔
دوسری جانب عائزہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھے اپنے پیر دراز کیےمزے سےفلیورڈ پاپ کارن منہ میں ڈالتے ہوۓ اپنے کانسرٹ اور لوگوں کی آن لائن تعریفیں وصول کرتی ٹانگیں ہلا رہی تھی اور نوفل کا نام اوپر سکرین پر چمکتا ہوا دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ سج گئی نوفل نے لکھا تھا کہ :" کیا میں آپ کی مصروفیات کا جائزہ لینے کے لیے آپ کے ساتھ کچھ وقت گزارسکتا ہوں؟
" جی بالکل مگر کیوں؟؟
نوفل کو اس کیوں نے کچھ پریشان کیا مگر شیطان تو پھر شیطان ہے ناں ۔اس کا تو کام ہی شیطانیت ہے ۔اپنا کام مکمل کرکے ہی دم لیتا ہے ،نوفل کا شیطانی دماغ پھر سے حرکت میں آیااور اس نے عائزہ کو جواب دیا کہ: " آخر دوست بھی تو دیکھ بھال کر بنانے چاہئیں۔
عائزہ نے فوری طور پر سوال داغ دیا ،تو مجھے دوستی کی پیشکش کیا سوچ کر کی تھی آپ نے مسٹر نوفل ؟
نوفل کو شاید عائزہ سے اس فوری سوال کی توقع نہ تھی، وہ کچھ گڑبڑا سا گیا لیکن سنبھل کر بولا "میرا مطلب ہے کہ آپ کے اچھے ہونے میں یقیناً کوئی شک نہیں مگر عائزہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کس طرح کے شوق رکھتی ہیں ؟کیسے لوگوں سے ملنا پسند کرتی ہیں ۔عائزہ کو جواب سنتے ہی ایک لمحے کے لیے حیرت بھی ہوئی اور تجسّس بھی کہ آخر یہ شخص ہے کیا چیز ۔ اس کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہوتا ہے ، یہ وہ لمحہ تھا جب عائزہ نے ایک بڑی غلطی کی اور کہ دیا کہ:" مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
نوفل کا مقصد اب پایہ تکمیل کو پہنچنے والا تھا جس کی اسے بے حد خوشی تھی کیونکہ عائزہ کے ساتھ تعلق استوار کرنے کے پیچھے جو شیطانی سوچ کام کررہی تھی وہ یہی تھی کہ وہ کسی طرح یہ معلوم کر سکے کہ عائزہ کس وقت کہاں جاتی ہے!.. ۔اگلے روز عائزہ اور نوفل یونیورسٹی کی چھٹی کے وقت ایک ساتھ نکلے ۔ عائزہ کی دوستوں نے بارہا عائزہ سے نوفل کے متعلق سوالات کیے تھے اور اس وقت بھی وہ عائزہ سے پوچھ رہی تھیں کہ: " کہاں جارہی ہو ؟ ہینگ آؤٹ کا پلان ہے کیا؟ عائزہ نے اپنے مخصوص انداز میں کندھے اچکا کر کہا : " جارہی ہوں بس دوست ہے تھوڑی دیر تک واپسی ہوجاۓ گی فاطمہ وہاں کھڑی سب کچھ دیکھ اور سن رہی تھی ، دوستوں نے واپسی کے متعلق اس لیے سوال کیا تھا کیونکہ ان کا رات ڈنر کا پلان طے پاچکا تھا۔ قریب ہی موجود فاطمہ کا دل ایک لمحے کو اس خیال میں ڈوبا کہ " میں عائزہ کو لے کر یہاں سے کہیں بہت دور چلی جاؤں اور زندگی کے ان جھوٹے،تلخ اور پھیکے رنگوں کی حقیقت اسے بتاؤں مگر اس نے صبر کا دامن تھامے رکھا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی:" یا اللہ تعالیٰ اس کی آنکھیں کھول دیں ۔اسے حقیقی علم کی روشنی دکھائیں کہ جسے آپ نور نہ بخشیں اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں" بے شک آپ ہی دلوں کو پھیرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔
آسمان پر شفق کی لالی کی طرح جو خوبصورت ہوتی ہے ، آنکھوں کو بھاتی ہےاور دل کو راحت بخشتی ہے، بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ ٰ کی محبت جب دل میں اجاگر ہونے لگتی ہے تو وہ قلب کے ہمراہ روح کو بھی تسکین فراہم کرتی ہے اور یہی فاطمہ کو حاصل تھا۔ اس کا دل اور اس کی روح اپنے رب کو جانتی اور پہچانتی تھی۔ آج نہ جانے کیوں اس کو خود سےایک سوال کرنے کا جی چاہا وہ آئینے کے سامنے جاکر کھڑی ہوئی ،سفید چادر پر ہلکے گلابی رنگ کی دھاگے والی کڑاہی میں اس کا چہرہ کسی روشن ستارے کی طرح دمک رہا تھامگر یہ بات تو سچ ہے ناں کہ جن کو اللہ تعالیٰ کی خاطر جینے کی عادت ہوتی ہے ان کو پھر تعریف بھی اسی ذات کی اچھی لگتی ہے ہاں مگر وہ شخص جو رب کی معرفت کی تمنا اپنے دل میں رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی اس چاہت کو اپنی رحمت سے پورا کرتے ہیں تو پھر کوئی دوسرا فرد اس کے چہرے پر نور اور صبغت اللہ کے آثار کو محسوس کرتا ہے ۔ فاطمہ کا چہرہ بھی اسی طرح کا تھا کہ اسے دیکھ کر اللّہ تعالیٰ کی یاد آتی تھی اور ایسے دوستوں کو تو اسلام میں سب سے بہترین دوست کہا گیا ہے جن کو دیکھ کر یا ان سے بات کرکے اللہ تعالیٰ کی یاد آۓ ۔
فاطمہ خود سے مخاطب ہوئ اور کہا کہ: "کیا تم اپنے رب کو جانتی ہو؟؟؟"اس کے اندر سے آوازآئی کہ :" ہاں میں اپنے رب کو صرف جانتی ہی نہیں بلکہ پہچانتی بھی ہوں۔ پھر اس کے دل میں تھوڑی سی بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی اور اس نے بے اختیار ایک بار پھر سوال کر ڈالا کہ: " کیا چیز ہے ایسی جو تمہیں اپنے رب کی جانب لے کر جاتی اور اس کو پہچاننے پر تمہیں راغب کرنے میں معاون ہے ؟ آج زندگی میں پہلی بار اس کے ذہن میں یہ دو سوال آئے تھے جس پر اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ اسے خوش ہونا چاہیے یا پھر پریشان
لیکن اسی لمحے فاطمہ کو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث یاد آئ جس کا مفہوم یہ ہےکہ : " صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ بعض دفعہ ہمارے ذہن یا دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ ہمارا دل کرتا ہے کہ خود کو قتل کر ڈالیں تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بات سن کر کچھ یوں فرمایا کہ یہی تو ایمان کی نشانی ہے" فاطمہ کو یہ حدیث ذہن میں آتے ہی بے چینی سے اطمینان کی سی کیفیت اپنے اوپر طاری ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تھی اور یہی تو جذبات کی سچائی ہوتی ہے کہ آپ حق و باطل کی جنگ میں ہوتے ہیں ، چاہے وہ کسی بھی شکل میں درپیش ہو ایمان کی پختگی اور عقائد کی مضبوطی کا پتہ دیتی ہے انہی تمام سوچوں کے درمیان اس کو اپنی ننھی چڑیوں کا خیال آیا اور گھڑی پر نظر ڈال کر ان کو کھانا کھلانے کے لیے دوڑ چلی۔ یہ تھی اللہ تعالیٰ اوراس کی مخلوق سے اس کی محبت اور یہ تھیں وہ منازل جن کو وہ خود سے خدا تک پہنچنے کے لیے طے کررہی تھی۔
عائزہ اور نوفل گاڑی میں بیٹھے گپ شپ کررہے تھے کہ نوفل نے اپنی گاڑی ایک گودام کے باہر روک دی ،عائزہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہی ہو کہ ہم نے تو کہیں اور جانا تھا ،نوفل نے اپنی شیطانی عزائم چھپانے کے لیے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ کا جھوٹا نقاب سجا لیا اور عائزہ کو دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ میرے ساتھ آئیں تو میں آپ کو سب بتاتا ہوں ، عائزہ نے قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ اپنا سر اثبات میں ہلایا اور دونوں گاڑی سے اترنے کے بعد گودام میں کی جانب بڑھنے لگے ، یہ ایک عجیب سی پراسرار جگہ تھی ۔جیسے جیسے عائزہ کے قدم آگے بڑھتے جارہے تھے اس کے دل پر خوف طاری ہورہا تھا۔ راہداری میں کافی اندھیرا تھا اور کسی متنفس کی موجودگی نہ ہونے کے سبب وہ راہداری بہت سنسان تھی ۔عائزہ کو بہت شدت سے یہ احساس ہوا کہ وہ ٹریپ ہوچکی ہے اور اس نے وہیں پر کھڑے ہوکرنوفل سے واپس جانے کو کہا ،تو نوفل نے اس کو جواب میں کہا کہ اب تو تمہارے واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ میرے بابا کے الیکشن جیتنے کے واضح راستے نہ ہموار ہو جائیں۔ عائزہ جو اس کے چہرے پرآنے والے خوفناک تاثرات دیکھ چکی تھی نے پیچھے کی جانب بھاگنے کے لیے قدم بڑھائے ہی تھے کہ اسے اپنے ہاتھ پر ایک بہت مضبوط اور سخت گرفت محسوس ہوئی اور اسےایسا لگا جیسے اس کے سر پر کسی بھاری چیز سے وار کیا گیا ہو جس کے بعد عائزہ کو کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہوا ، وہ بے ہوش ہو چکی تھی جب کافی دیر گزرنے کے بعد اس کی آنکھ کھلی تو اس کے ہاتھ اور پاؤں رسیوں سے جکڑے ہوئے تھے ۔