سلمیٰ نور
بچے کہنے کو تو بچے کہلاتے ہیں لیکن یہ بڑے بڑوں کو آگے لگائے رکھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ بزرگ کہتے ہیں کہ ایک نیانہ سو
سیانوں پر بھاری ہوتا ہے۔ سب ان کی دلداریاں کرتے آگے پیچھے بھاگتے ہیں۔ بڑے سے بڑا نقصان بھی کر دیں تو کہا جاتا ہے کوئی بات نہیں بچہ ہے۔
اچھے خاصے سنجیدہ نظر آنے والے لوگ بھی ان کےساتھ بچے بنے کھیلتے اور توتلی باتیں کرتےپاۓجاتے ہیں اورجواب میں یہ ایسے تاثرات دیتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں “اونہہ انہیں تو بولنا ہی نہیں آتا“۔ کسی نے ان کو کاندھے پر سوار کر رکھا ہے تو کوئی ان کے لیے گھوڑا، گدھا بن کے خوش ہو رہا ہے۔ غرض جس گھر میں یہ مخلوق ہو وہاں پھر اسی کا راج ہوتا ہے۔
ایک بچے کے اندر میکینک، انجینئر اور نہ جانےکون کون سا ہنرمند پیدائشی طور پر پایا جاتا ہے۔ ابھی موصوف ڈائپر میں ہوتے ہیں کہ اپنے کھلونوں کے پیچ کھولنا شروع کر دیتے ہیں۔ گھر کی کوئی چیز ان کی پہنچ سے دور نہیں رہ سکتی۔ کسی بات سے منع کر دو، روک دو، ٹوک دو تو دادیوں نانیوں کے پاس جا کر باقاعدہ ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر دیتے ہیں۔ جس پر اکثر بھاری جرمانہ عائد کر دیا جاتا ہے کہ باہر لے کر جاؤ، سیر کرواؤ اور ان کی پسند کی چیزیں دلاؤ۔
اگر باپ بھی ان کو ایک آنکھ دکھانے کی کوشش کرے تو پانچ سوآنکھیں اسےگھورنا شروع کر دیتی ہیں۔ وہ بھی “میں نے تو کچھ بھی نہیں کہا“ کہتا ہوا جان بچاتا ایک کونے میں جا بیٹھتا ہے۔ بچہ نیند میں جس طرف بھی ٹانگ کر دے اس طرف ہٹو بچو والی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی تو ماں باپ پلنگ کے مخالف اطراف میں زمین پر سوۓ پاۓ جاتے ہیں۔
ویسے تو ہر وقت ان ہی کا ہوتا ہے لیکن ان کی وارداتیں زیادہ تر صبح سویرے ہوتی ہیں۔ جب سب اپنے اپنےبستروں میں اٹھنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں اس وقت تک یہ ساری الماریوں، درازوں اور تو اور باورچی خانے کی کیبنٹ تک میں چھاپے مار چکے ہوتے ہیں۔ ساری دالیں چاول اوندھے منہ زمین پر پڑے کراہ رہے ہوتے ہیں ڈوئیاں اور چمچے کڑچھے برآمدے میں کمر سہلاتے پاۓ جاتے ہیں۔ اور تو اور اپنی فتح کا جشن پانی کی ساری بوتلوں کے فوارے بنا کر مناتے ہیں۔ ان کی دس منٹ کی کاروائی تین گھنٹے کی صفائی مانگتی ہے۔
انہیں اپنی جلد کی نگہداشت کا بھی بہت خیال ہوتا ہے۔ کوئی کریم پاؤڈر لوشن ان کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتا۔ کبھی کبھی تو سویرے آنکھ کھلنے پر ایک عجیب سی مخلوق ڈریسنگ ٹیبل کے اوپر دیکھ کر چیخ ہی نکل جاتی ہے۔ کچھ دیر تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ یہ چیز ہے کیا۔ پھر قیمتی کریم پاؤڈر کھلے دیکھ کر حسیات بیدار ہوتی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کوئی چلتا پھرتا آٹے کا تھیلا نہیں بلکہ اپنا ہی “بچہ“ ہے۔
بجلی کے سوئچ دیکھتے ہی ان کے اندر نہ جانے کون سا کرنٹ دوڑنے لگتا ہے فوراً جا کے انگلیوں سے کاریگری دکھانا شروع کردیتے ہیں اور گھر بھر کی چیخیں نکل جاتی ہیں جیسے ان سب کی انگلیوں سے بیک وقت کرنٹ گزر گیا ہو۔ آج تک اس بات پر تحقیق جاری ہے کہ یہ بجلی کے سوئچ میں سے کونسا نیا برقی نظام دریافت کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ ان کا ننھا منا سا دماغ ہر وقت کمپیوٹر کی طرح چلتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے یہ سوتے میں بھی سوچتے ہیں کہ اب کون سی الماری کا کون سا دراز باقی رہ گیا ہے۔
اس سب کے باوجود سچی بات تو یہ ہے کہ انہیں کے دم قدم سے گھر آباد ہیں اور انہیں کے وجود سے رونقیں بحال ہیں۔ ان کی ہر حرکت پر ہم خوشی سے یہ کہتے ہیں “کوئی بات نہیں بچہ ہے۔“