دوحہ(ویب ڈیسک)معروف مذہبی مبلغ اور ممتاز عالم دین علامہ یوسف القرضاوی علالت کے بعد 96 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔
معروف عالم دین اور اخوان المسلمین سے وابستہ علامہ شیخ القرضاوی کافی عرصے سے علیل تھے اور قطر میں زندگی گزار رہے تھے، ان کی آفیشل ویب سائٹ اور ٹوئٹر اکاونٹ سے ان کی وفات کی اطلاع دی گئی ۔ انھیں گزشتہ برس کورونا ہوا تھا اور وہ صحت یاب ہوگئے تھے تاہم چند ماہ سے کافی علیل تھے۔علامہ یوسف القرضاوی کی پیدائش 9 ستمبر 1926 کو مصر کے ایک گاﺅں صفط تراب میں ہوئی، یوسف القرضاوی 1926 کو پیدا ہوئے اور مصر میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ اسی دوران میں انہیں اخوانی قیادت نے مختلف عہدوں کی پیشکش کی لیکن وہ علمی اور فکری کاموں میں مصروف رہے،اخوان المسلمین سے وابستہ ہوئے اور عملی جدوجہد میں حصہ لیا ،جس کی پاداش میں 1950 کو جمال عبدالناصر کے دور میں گرفتار بھی ہوئے۔
علامہ یوسف القرضاوی 1960 کی دہائی کے اوائل میں مصر سے قطر کے لیے روانہ ہوئے اور قطر یونیورسٹی میں فیکلٹی آف شریعہ کے ڈین کے طور پر خدمات انجام دیں جس کی بنیاد پر انھیں 1968 قطری شہریت دی گئی۔
فروری 2011 کو قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں لاکھوں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی نے یہ سنہری ہدایات جاری کہ اس انقلاب کو ان منافقوں کے ہاتھوں چوری نہ ہونے دیں، جنہوں نے اپنا مکروہ چہرہ چھپایا ہوا ہے۔ ابھی انقلاب کا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی مصر کی تعمیر کا آغاز ہوا ہے۔اس لیے اپنے انقلاب کی حفاظت کرو۔
شیخ یوسف القرضاوی سیکڑوں کتابوں کے مصنف تھے اور اپنی وفات تک وہ انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کے صدر کے طور پر بھی فرائض انجام دے رہے تھے، انہیں مصر کی اسلامی تنظیم اخوان المسلمون کا روحانی قائد بھی مانا جاتا ہے۔علامہ یوسف القرضاوی کی زکوة، اسلامی قوانین کی تشریح اور اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق کتابوں نے عالمی شہرت حاصل کی اور اسلامی جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئیں۔
شیخ یوسف القرضاوی کو جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلی مودودی اور امام حسن البنا سے خاص نظریاتی عقیدت تھی۔یوسف القرضاوی کو عرب دنیا میں غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی، وہ اسلام آن لائن ڈاٹ نیٹ پر بھی لوگوں کے سوالات کے جوابات اور فتاوی جاری کرتے تھے۔علامہ یوسف القرضاوی فلسطینی جہادی تحریکوں کی بھرپور حمایت کرتے تھے۔علامہ یوسف القرضاوی کے مغرب کے خلاف دو ٹوک موقف کی بنیاد پر بعض عرب ممالک نے ان پر دہشت گرد کا لیبل لگا رکھا تھا ۔