نزہت ریاض
کل رکشےمیں بیٹھ کرایک پروگرام میں شرکت کےلیےگئی تھی۔ رکشے والے بزرگ آدمی تھے،اس لیے میں نے کرائے میں ان سے کوئی حیل وحجت نہیں
کی۔ رکشے میں بیٹھنے کے بعد انہوں نے مجھ سے ایک سوال کیا اورمیں ان کے سوال پرچونک سی گئی۔
ان کا مجھ سے سوال تھا بیٹا ووٹ کس کودو گی۔میں کہا انکل آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں۔ وہ بولے بیٹا آج کل جو سواری بھی بٹھاتا ہوں،اس سے یہی سوال کرتا ہوں۔ میں نے پوچھا وہ کیوں انکل۔۔۔۔وہ اس لیے بیٹا کہ کراچی کے مسائل کے لیے جتنا رونا تھارولیا۔اسلام میں تو مرنے والے کے لیے بھی تین دن رونے کا حکم ہے۔میرا کراچی تو ابھی زندہ ہے۔
اب اس کے لیے رونے کا نہیں اٹھنے کا وقت ہے۔ پاکستان بننے سے لےکر آج تک سب کو آزما لیا کوئی ہمیں ہمارا حق نہیں دلا سکا تو بیٹا آج ترازو پرمہر لگانے کا وقت ہے۔تم بھی ترازو پرمہر لگانا کیونکہ کراچی میں اگرجینا ہے تو حق کا ساتھ تو دینا ہےاور میں حیران سی سوچ رہی تھی آج کراچی جاگ چکا ہے۔
اب آپ لوگ بتائیں کہ آپ جاگےیا نہیں۔اگرنہیں توخدارا جاگ جائیں۔ کراچی ہمارا شہر ہےاور آج ہم ہی اس شہرمیں تیسرے درجے کے شہری بن کر رہ گئے ہیں۔ ایسا حال تو کشمیر کا بھارت نےکر رکھا ہے۔ ان پر گیس ،بجلی ،پانی اور دیگر بنیادی ضروریات بند کر دی گئی ہیں،مگر کراچی مقبوضہ نہیں ہے۔ ہم ایک آزاد ملک کے آذاد شہری ہیں،مگرآج ہم نہ صرف گیس ،بجلی اور پانی کے لیے ترس رہےہیں بلکہ ان چیزوں کو استعمال کیے بغیران کے بل بھربھر کر نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔
کراچی کے نوجوان روزگار کی سہولتوں سےمحروم ہیں۔میٹرک پاس بچہ ہو یا ایم اے پاس نوجوان ،آج بڑی تعداد میں نوجوان روزگار کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں ۔یہی نوجوان جب ہرطرف سے مایوس ہوجائیں تو شاپنگ مال کی چھتوں سے کود کر اپنی جان دے دیتے ہیں ۔
تواب اس بات کا فیصلہ آپ لوگوں کوخود کرنا ہے کہ حق کا ساتھ دینا ہے تو ترازو پر مہر لگانی ہے۔ یا لمبی تان کر سوتے رہنا ہے۔ اگر اپنے حصے کا حق چاہیےتو اٹھنا توہو گا، پھر چاہے وہ ووٹ کی طاقت ہو، قلم کی ہو یا مال کی ہرپلیٹ فارم سےجماعت اسلامی کا ساتھ دیں اورایک بار پھر کراچی کو روشنیوں کا شہر بنا دیں ۔
کراچی کو علم کا گہوارہ بنا دیں۔ محبت کی علامت بنا دیں۔ پھر کبھی میرے کراچی کا کوئی ایریا نو گوایریا نہ بنے۔ پھر کسی ماں کے لال کی لاش بوری میں بند نہ ملے۔ پھر کسی کو بھتے کی پرچی نہ ملے۔ پھر کوئی امجد صابری نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانا نہ بنے ۔پھر کوئی ماں اپنے بچوں کے ساتھ نیٹی جیٹی کے پل سے کود کر خود کشی نہ کرے ۔
کراچی کو اب نعروں اور جھوٹے وعدوں کی نہیں کسی حقیقی رہنماء کی ضرورت ہے،جوحافظ نعیم الرحمٰن کی صورت میں موجود ہے ۔ جن کا ماضی ،حال دیانتداری ،شرافت اورپاکیزہ کردار سے عبارت ہے، جوکراچی کے حق کے لیے لڑتے ہیں اور اس کے مسائل پر عوام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ۔بس آپ کو بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے اور بلدیاتی انتخابات میں ترازو پرمہر لگانی ہے۔
نوٹ: ایڈیٹر رنگ نو کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں (ادارہ)