نزہت ریاض
اسد نیچے جاکر پانی کی موٹر چلا کر آؤ پانی نہیں آرہا میں نےاپنے بیٹےکو آواز لگائی۔اسد اپنی کتاب جس سے وہ ہوم ورک
کررہا تھا بند کر کے اٹھا اور گراؤنڈ فلور والےانکل سےجاکر موٹر چلانے کو کہا جس پرانہوں نے تڑخ کر اسد کو ڈانٹا کوئی موٹر ووٹر نہیں چلے گی ۔اسد اپنا سا منہ لے کر اوپرواپس أگیا۔ بچہ ڈانٹ کھا کر روہانسا سا ہوکرمجھ سے بولا امی انکل نے مجھے ڈانٹ کر بھگا دیا اورموٹر بھی نہیں چلا اب میں دوبارہ نہیں جاؤنگا؛ اچھا بھئ میں خود جاتی ہوں اللہ نہ کرے موٹر ہی نہ خراب ہو گئی ہو۔
ہماری رہائش تھرڈ فلور پربنے پینٹ ہاوٴس پرہے۔ الحمد للہ اپنا پورشن ہے اس مہنگائی کے دور میں اللہ نے سر پر چھت دی ہوئی ہے۔ اس پر اس مالک کا جتنا شکر ادا کروں وہ کم ہے۔
ناظم أباد میں لائن کا میٹھا پانی استعمال کیےتو زمانہ گزر گیا،مگر شکر ہے بورنگ کا پانی موجود ہے اور ہمارے گراؤنڈ فلورکی رہائشی فیملی پانی ٹینک میں بھرنے اور اوپر کی ٹنکی میں پانی چڑھانے کی ساری ذمہ داری اپنی خوشی سےاٹھائےہوئےہے۔انہوں نے کبھی بھی کسی فلوروالوں کو نہیں کہا کہ آکر خود موٹر چلائیں یا ٹینک بھریں جس پر ہم تینوں فلور والے ان کے احسان مند رہتے ہیں ہم تو بس موٹرکے بل میں اپنا حصہ شئیر کر لیتے ہیں۔
تو پھر آتے ہیں آج کےواقعے پر میں جلدی جلدی گھرکےکام نمٹانا چاہ رہی تھی تاکہ بدھ کی قرأن کلاس میں ٹائم پر پہنچ سکوں ۔ برتن دھونے کھڑی ہوئی تو تو نل سے پانی ایسے غائب ہوا جیسے ووٹ مل جانے کے بعد سیاستدان غائب ہوجاتے ہیں۔ اب میں حیران پریشان میلے برتنوں کو تک رہی تھی۔ اسد میاں توصاف انکار کر کے دوبارہ اپنی کتاب میں سرڈال کر بیٹھ گئےتھے۔ مجبوراً مجھے ہی تین منزل اتر کر نیچے جانا پڑا انکل سامنےہی کھڑے نظرآئے میں نے پوچھا پانی کیوں نہیں چڑھا رہے انکل ؟
انکل نے تڑخ کر جواب دیا اپنے سے نیچے پورشن والوں سےجا کر پوچھیں انہیں ہمدردی کا بخار کیوں چڑھا ہے برابرکی بلڈنگ والوں کو پائپ لگا کر پانی دے رہی ہیں، دو دن سے اسی لیے اب میں پانی نہیں چڑھا رہا ۔ماجرا کچھ یوں تھا کہ برابر والوں کی بورنگ دو دن پہلے خراب ہو گئی تھی جس پر کام چل رہا تھا اور ہماری بلڈنگ والی ایک خاتون نے انہیں اپنی کھڑکی سےپائپ لگا کر دو چار بالٹی پانی دے دیں، جس پر انکل سیخ پا ہوئےبیٹھے تھے،خیر اس وقت تو میں نے ان سے موٹر چلوائی اورواپس اپنے کام نمٹانے میں لگ گئی ،مگراب دماغ میں یہی بات گردش کئے،جا رہی تھی کہ ہمارا معاشرہ پستی کی کس انتہاء پرپہنچ چکا ہے۔ پانی سے پتلی کیا چیز ہوگی۔ کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ کسی کی اتنی معمولی سی مدد بھی کرنےکے روادار نہیں کہ ہم مشکل وقت میں کسی کو تھوڑا سا پانی بھی نہیں دےسکتے ۔
بقرعید قریب ہے قربانی ہمیں کیا سکھاتی ہےیہی نہ کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام اپنی سب سے قیمتی چیز یعنی اپنی اولاد اور وہ بھی بیٹا اللہ کی راہ میں خوشی خوشی قربان کرنے چلے تھے ۔انہوں نے تو ایک بار بھی نہیں سوچا کہ میں کیوں اپنے بیٹے کو قربان کروں۔ ذرا سوچیں اللہ تعالیٰ حضرت اسماعیل علیہ سلام کی جگہ دنبہ نہ لےآتے تو آج ہم سب اپنے بیٹوں کو قربان کر رہے ہوتے کیا ہم میں وہ ظرف ہے کہ ہم اپنی قیمتی چیز کو قربان کر سکیں۔
ہم تو تھوڑا سا پانی کسی کو دینے کے روادار نہیں ہم کیا اپنی قیمتی چیزقربان کریں گے۔ آج ہم شو آف کرنے کے لیے لاکھوں کا جانور قربانی کے لیے لاتے ہیں اور پھراسےسارے محلے میں گھما گھما کر اس کی قیمت بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے تمہارے خون کی اورگوشت کی ضرورت نہیں مجھے تو نیت درکار ہے اور ہم جب قربانی کے جانور کا گوشت تقسیم کرتے ہیں تو دو بوٹی چار ہڈی اور چھیچھڑوں سے بھری تھیلی اپنے غریب پڑوسی کو بھیج کر اس پر احسان عظیم فرماتے ہیں، جب کہ اس کی حیثیت اوراستطاعت قربانی کرنے کی بھی نہیں ہے تو کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم اسے اتنا گوشت تو دیں کہ وہ کچھ دن اپنے گھرمیں اچھی طرح گوشت سے بنی ڈشز کھا سکے،لیکن نہیں ہمیں تو اپنے ڈیپ فریزر کا پیٹ پہلے فل کرنا ہوتا ہے ۔
قربانی کے گوشت میں ایک حصہ اپنا ہوتا ہے،مگراس کو حصہ ہی شمارکریں نہ کہ چھ حصے پر جا کردل اور نیت بھرے اور ساتواں ہڈیوں اورچھیچڑوں سےبھرا حصہ غریبوں اور رشتے داروں میں تقسیم کیا جائے۔خدارا قربانی کی اصل روح کو سمجھیں جہاں اس معاشرے میں ہم کسی پڑوسی کو تھوڑا سا پانی دینے کےروادار نہیں کیا ہم قربانی کرنے کےحقدار ہیں ۔
پھر میں اپنےسوال کو دہراتی ہوں ہم بحیثیت مسلمان آج پستی کی کس نچلی منزل پرکھڑے ہیں جواب ضرور سوچیے گا مل جائے تو سب سے پہلے خود اپنےآپ سےشیئرکرلیجیےگا۔