
نگہت فرمان
سات اکتوبر ایسا دن جس نے لاکھوں زندگیوں کو چھین لیا، خوابوں کو خاک میں ملایا اور ایک پوری بستی کو طویل رنج و غم کے سایے میں
دھکیل دیا۔ ان دو برسوں میں کون کون سا ظلم ہےجواہل فلسطین پرنہیں ڈھایا گیا جو کچھ فلسطین میں ہوا اس کا خیال بھی دہلا دینے والا ہے۔دنیا کے سامنے نسل کشی جاری ہے ۔انسانیت سسک رہی ہے، مائیں اپنے ننھے ننھے بچوں اور جوانوں کو دفنا رہی ہیں۔بچے ،معصوم بچے خود دنیا سے جانے کی خواہش کررہے ہیں کہ جنت میں چلے جائیں اور دنیا ،دنیا اس ظلم پر نوحہ کنا ں تو ہے لیکن بے بس ہے کہ جن کے پاس طاقت ہے وہ خود ظالم کی صف میں کھڑے ہیں ۔۔
ان حالات میں چند دیوانے خود کو روک نا سکے اور فلوٹیلا وہ کشتیوں کا قافلہ لے جانے کا فیصلہ کیا جو مشکل حالات میں علاج، خوراک اور اظہارِ یکجہتی لے کر نکلا اور توقع کے مطابق سفاک درندوں نے اسے روک لیا ، ان کی رہائی پر جو کچھ ان کی زبانی معلوم ہوا ، وہ محض خبرنہیں بلکہ زندہ انسانی تجربات ہیں جنہوں نے دنیا کو ایک آئینہ دکھایا ہے ۔ ایسا آئینہ جو ہمیں بتاتا ہے کہ جو سلوک ان کے ساتھ ہوا ہمارے لیے تو وہی انتہائی درد ناک ہے تو جو اہل فلسطین برسوں سے جھیل رہے تھے اور جو گزشتہ دو برسوں میں سہا وہ کس قدر کرب ناک ہوگا ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے ۔
اقوامِ متحدہ کے اصول، بین الاقوامی انسانی قوانین، اور بنیادی انسانی حقوق یہ سب اسی بنا پر ہیں کہ طاقت کے سامنے کمزور بے بس نا ہو لیکن ان کے سامنے قابض نے جنگ کو ایک مستقل کیفیت بنا دیا ہے۔ زبردستی مسلط ہوکر اسے نکال دیا اور چھوٹا سا حصہ دے کر اس پر بھی حکمرانی اپنی رکھنا چاہتا ہے۔کیا یہ فعل کسی کے لیے بھی قابل قبول ہوسکتا ہے ؟ کیا ان سب پر اقوام متحدہ کا خاموش تماشائی بنے رہنا مجرم کی حمایت نہیں؟
امریکہ یا کسی بھی طاقت ور سرزمین کی ظلم پر حمایت، ناقابل معافی جرم اوربرابرکا گناہ ہے۔سفارتکاری اور سلامتی کی بحثیں ضروری ہیں مگر جب یہ بحثیں زندگیاں چھیننے والے عمل کو غیر مشروط سہارا دیں ۔ تو کیا ہم اس کو انصاف کہہ سکتے ہیں؟ امریکا و اس رائی ل اور ان جیسے تمام ظالموں نے طاقت کو قانون بنادیا ہے۔
مزاحمت کا جذبہ، ہر ظلم میں زندہ رہنے کی آخری کال ہوتا ہےمگر مزاحمت کی تعریفیں مختلف ہیں: کبھی وہ ٹھہراؤ اور جدو جہد ہوتی ہے، کبھی سیاسی آواز اٹھانا، اور کبھی بین الاقوامی قوانین کے اندر رہ کر حقوق کا مطالبہ۔ جو لوگ بند کر دیے جاتے ہیں، بے سروسامانی میں مارے جاتے ہیں یا عالمی اکھاڑے میں تنہا چھوڑ دیے جاتے ہیں ۔ ان کے لیے ہمارے الفاظ، ہماری احتجاجی آوازیں، اور ہماری انسانی یکجہتی کا مقصد واضح ہونا چاہیے: ظلم کو روکو، امداد پہنچاؤ، اور حل تلاش کرو ایسا حل جو انسانی زندگی کو ،قوم کی آزادی و خود مختاری کو مقدم رکھے۔
ہم خاموشی نہیں اختیار کر سکتے ، نہ سیاست کے نام پر، اور نہ ہی کسی مذہبی یا جغرافیائی تقسیم کے نام پر۔ ہم نا بھولیں گے نا بھولنے دیں گے ،اپنے بچوں کو پوری دنیا کو یاد کرواتے رہیں گے کہ ظالم نے ہر ستم کر ڈالا جب کچھ حاصل نا کرسکا تو مزاحمت کو دنیا بھر میں تنہا کرکے جھکنے پر مجبور کیا جارہا ہے لیکن ہال کو یاد رکھنا چاہیے کہ انصاف کے بغیر کوئی دیرپا سکون ممکن نہیں ،اہل فل سطین پر جبر کی انتہا کردی گئی لیکن وہ کھڑے ہیں تاریخ بتاتی ہے ہتھیار زمین پر پھینکنے والے رسوا ہوئے ہیں اور یہ بھی بتاتی ہے کہ جھوٹے وعدے کرکے غیر مسلح کرکے قتل کردینا ظالم ،جابر و دھوکے بازوں کا شیوہ رہا ہے ۔۔ان شاء اللہ تاریخ بدلے گی مورخ لکھے گا کہ کچھ سر کٹانے والے اس دور میں بھی ایسے تھے جب انہیں دنیا نے تنہا کردیا لیکن وہ میدان میں کھڑے رہے بلا خوف و خطر کہ جس نے جاں کا سودا جنت کے بدلے کرلیا وہ سود و زیاں کا حساب نہیں رکھتا ۔۔




































