احسن اختر
سندھ حکومت نے کالجز میں داخلے کے لیے ڈومیسائل کی شرط کی پابندی لگائی ہے!نا اہل اورناکارہ حکومت کی اس ناروا پابندی کا دوسرا سال ہے
ڈومیسائل پاکستان بننے کے تین سال بعد 1951 میں اس لئیے متعارف کرایا گیا کہ پاکستان ایک نیا ملک بنا تھا اور ہندوستان سے لوگ ہجرت کر کےآ رہے تھے ، سرکاری نوکریاں ان افراد کو ملیں جو اس ملک کے باقاعدہ شہری ہوں لہذا اس کی ضرورت پیش آ ئی !ڈومیسائل اس بات کی یقین دہانی کے لئیے تھا کہ آ پ اس ہندوستان سے کب ہجرت کر کے آ ئے، اب آ پ مستقل پاکستان میں فلاں جگہ رہائش پذیر ہیں!ڈومیسائل بنوانے کے لئیے درخواست گزار کو ہر وہ معلومات فراہم کرنا ہوتی ہے جو اس نے پہلے ہی شناختی کارڈ کے حصول کے لئیے گورنمنٹ کے ادارے نادرا کو دی ہوئی ہے!اب نادرا کے پاس ملک میں موجود تمام افراد کا ڈیٹا موجود ہے.
پاکستان کے تمام شہریوں کو ایک 13 ہندسی نمبر الاٹ کیا گیا ہےاس کا ہر حصہ ایک ترتیب سے فرد کی معلومات فراہم کرتا ہے، اس کے پہلے5 ہندسے فرد کے رہائشی علاقے کی نشاندھی کرتے ہیں ، ان میں پہلا ہندسہ صوبہ، دوسرا ہندسہ ڈویژن، تیسرا حصہ ضلع ، چوتھا ہندسہ تحصیل ، پانچواں ہندسہ یونین کونسل کو ظاہر کرتا ہے!باقی ہندسوں سے اس کی جنس کہ وہ عورت ہے یا مرد اس کی نشاندھی ہوتی ہے، ہر شناختی کارڈ پر مستقل و موجودگی پتہ درج ہوتا ہے!اب میٹرک کے بچوں کو جمہوریت کی دعوے دار پارٹی مجبور کرتی ہے کہ وہ حلف نامی بھریں، کہ" وہ سیاست میں حصہ نہ لیں گے" "خود اس جماعت کا طلبہ ونگ کام کر رہا ہوتا ہے"صوبہ سندھ میں اسمبلی نے منظورہ دی کہ طلبہ الیکشن کروائے جائیں ، اور حلف نامہ کی پابندی بھی کرائی جاتی ہے.اب ڈومیسائل کی پابندی عائد کی گئی ہے۔میرا پچھلے سال کراچی جنوبی کے ڈی سی آ فس جانا ہوا!صبح دس سے گیارہ پینتیس ٹوکن ایشو کئیے گئے!ہمارا نمبر 32 تھا!ہم نمبر لے کر انتظار میں بیٹھ گئے، اور چار بجے تک۔ بیٹھے رہے!
ٹوکن 35 ایشو ہوئے، کم از کم 100 لوگ بغیر نمبر چلے گئے ، پتہ یہ چلا کہ کوئی فلاں افسر اور کوئی فلاں پارٹی کے لوگ ہیں!خیر چار بجے نمبر آ نے پر ہماری باری آئی تو انکشاف ہوا کہ یہ ڈومیسائل یہاں نہیں بنے گا!ہمارے شناختی کارڈ پر ڈیفینس ویو ضلع جنوبی کا ہی پتہ تھا ، لیکن بے نظیر سندھ حکومت نے دوسال پیشتر ڈیفینس ویو اور جونیجو ٹاؤن کو کورنگی میں شفٹ کر دیا تھا، لہذا وہی فلمی ڈائیلاگ یاد آ گیا!" یہ شادی نہیں ہو سکتی"اگلے دن ہم یہ سمجھ کے کہ سرکاری دفاتر کا وقت 9 بجے ہوتا ہے ڈی سی آ فس کورنگی زمان ٹاؤن پہنچ گئے!دفتر میں داخل ہوئے تو نہ بندہ نہ بندے کی زات !صاحب لوگ دس گیارہ پر ہی آ تے ہیں.پتہ کرنے پہ انکشاف ہوا کہ جنوبی میں کچھ اور دستور تھا اور یہاں کچھ اور دستور ہے.یہاں پہلے فائیل بنے گی.وہ کہاں بنے گی؟ہمارے پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے لئیے ایجنٹ دکانیں کھولے بیٹھے ہیں.ہم وہاں پہنچے اور کام با آ سانی " بل رقم" ہو گیا۔
یہ ہی ڈومیسائل کی اصلیت ہے، ہماری سندھ گورنمنٹ قانون ہی ایسے بناتی ہے جس سے خصوصاً شہری علاقوں کے نوجوان پریشان ہوں، حلف نامے اور ڈومیسائل پر دو سرکاری افسران کے دستخط ضروری کئیے گئے ہیں۔کوئی کچھ بھی سمجھے یہی حقیقت ہے۔آ ج سے کچھ سالوں پہلے کچھ نہ کچھ سرکاری افسران اکیس گریڈ کے شہری علاقوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن اب کافی عرصہ سے ایک مخصوص قومیت کے ہی لوگ پوسٹوں پر ہیں۔عمومی طور پر یہ لوگ سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ہی ان سیٹوں پر ہیں!اندرون سندھ تعلیمی معیار سب کے سامنے ہے!جہاں میٹرک کے امتحانات میں کھلے عام نقل ہوتی ہے وہاں کے پڑھے ہوئے لوگ اب افسران لگ گئے ہیں۔
جب میں حلف نامے کے لئیے اپنے محلے کے سرکاری اسکول پہنچا تو "سائیں نے دستخط کرنے سے انکار کردیا!میرے اصرار پر فرمانے لگے کہ ہم کو آ پ کا کیا معلوم کہ آ پ سیاست میں حصہ لیں گے یا نہیں!میں دوسرے اسکول پہنچا تو انکشاف ہوا کہ پرنسپل موجود نہیں۔میں تیسرے اسکول پہنچا تو وہاں گیٹ بند تھا، کھٹکھٹانے پر چپڑاسی آ یا وہ بھی سائیں تھا اس نے بھی ہمیں بھگا دیا!ہم کینٹ پبلک اسکول کراچی کینٹ کے پڑھے ہوئے تھے ہم نے سوچا ہمارا یہ کام وہاں ہو جائے گا ، وہاں پہنچے تو ہمارے اسکول کے پرنسپل بھی موجود نہ تھے، وائس پرنسپل تک پہنچ ہونے نہ دی گئی۔کینٹ پبلک کے ساتھ ایک اور اسکول اے بی سینیا اسکول بنا ہے وہاں سے بھی انکار ہوا۔ہم نے پھر " قائد اعظم" کی مدد لی اور ملکی معیشت کو ترقی دینے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہوئے اپنا کام( کیسے بھی) کرا لیا۔یہ نارو ڈومیسائل کی پابندی پنجاب میں ختم کر دی گئی ہے،لیکن صوبہ سندھ میں اس پر اصرار صرف اور صرف لسانیت اور تعصب کو فروغ دینے کی پالیسی ہی نظر آ تا ہے۔ کیونکہ بلوچستان، پختونخوا اور کشمیر میں ڈومیسائل، صرف سیدھا سادا ڈومیسائل ہوتا ہے لیکن سندھ کے ڈومیسائل میں دیہی اور شہری سندھ کی قدغن لگ جاتی ہے اور سیدھا سادھا ڈومیسائل، چالاک اور شرارتی ڈومیسائل بن جاتا ہے۔اس چالاک پریشان کن ڈومیسائل بنانے کے لئے کتنی قطاروں میں شہری سندھ کے نوجوان لگتے ہیں اور پھر کافی وقت خرچ ہونے کے بعد ڈرائونگ لائسنس کی طرح ان پر اعتراض لگا کر فائیل واپس کر دی جاتی ہے، پھر سائیں کے ایجنٹ سے مک مکا کر کے " قائد اعظم" کی مدد سے ہی ڈومیسائل بنا کر کالج میں جمع کرایا جاتا ہے!ان حالات میں ہم یہی کہ سکتے ہیں" انجام گلستاں کیا ہوگا؟"
ایڈیٹر کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں (ادارہ رنگ نو )