زین صدیقی
لاک ڈاؤن کے باعث چند ماہ آرام سے گزارنے والے کراچی کے شہریوں کو کے الیکٹرک نے دوبارہ لوڈشیڈنگ کی صورت میں جھٹکے دینے
شروع کر دیئے ہیں ،جس سے شہریوں کی چیخیں نکل گئی ہیں ۔شہر کے مختلف علاقوں میں 8سے 12گھنٹے، کہیں اس سے زیادہ دورانیے کی اعلانیہ وغیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے ،لوڈشیڈنگ کا عمل کئی دہائیوں سے دیکھا جارہا ہے ۔
شہریوں نے وہ دن بھی گزارے جب دوسال قبل کے الیکٹرک رمضان میں عین سحر وافطارکے وقت گھنٹوں لوڈشیڈنگ کرتی تھی وہ بھی گرمیوں کے ایام میں ،رمضان گزارنا عذاب سے کم نہ تھا ۔شہر یوں کے پاس کے الیکٹرک کو دینے کیلئے بھاری بھر کم بلوں کے ساتھ موٹی موٹی مغلظات بھی تھیں ،جو وہ حسب توفیق دیتے رہتے تھے ۔
حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ نہیں بدلتاتوکے الیکٹرک کا قبلہ نہیں بدلتا ۔وہی الٹی چال برقرار رہتی ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ اس میں پی پی چیئر مین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے شیئر ز ہیں ۔کوئی کہتا ہے کہ کے الیکٹرک کے کا سی ای او وزیر اعظم کا دوست ہے اور اس میں ان کا بھی شیئر ہے ۔کے الیکٹر ک کا ادارہ ایک پر اسرار ادارہ بن چکا ہے ۔شہریوں کو جس کے مالک کا پتا ہے ،نہ ہی حصہ داروں کا ،یہ بے لگام اور سفید ہاتھی اداررہ ہے،جس کا مقصد عوام سے پیسہ گھسیٹنا اورانہیں لوٹنا ہے ۔کے الیکٹرک آفس جائیں تو وہاں بہت سے لوگ مسائل لیکر دہائیاں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔بعض لوگ تو بے چارے اتنے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ گالیاں دیئے بغیر نہیں رہتے ۔
اس کی چوریوں کے مختلف انداز ہیں ہر ماہ جون میں یہ ناجائز طریقہ سے ان علاقوں میں جہاں کنڈے لگے ہوتے ہیں ،بجلی چوری ،لوڈزیادہ ہونے،بجلی ضرورت سے کم استعمال کرنے،ارتھ لینے سمیت کئی بھونڈے الزامات عائد کر کے بل وصول کرتے ہیں ،جب شہری روتے دھوتے مشکلوں سے کے الیکٹرک آفس جاتے ہیں اور کئی چکر لگانے کے بعد مسئلہ حل نہ ہونے پرکے الیکٹرک والوں کے سامنے روتے دھوتے ہیں تو وہ احسان جتاتے ہوئے انہیں بل کی تین قسطیں کرنے کا لالی پاپ دیتے ہیں۔جب صارف اسے قبول نہیں کرتا تو 1000روپے قسط کر نے کا لالچ دیا جائے ۔پھر بیچارا غریب صارف مجبور ہو کر اسے قبول کرنے ہی میں عافیت جانتا ہے ۔
کے الیکٹرک پر میٹر میں تقریبا ً دس سے 15یونٹ کے گھپلے کا بھی الزام عائد کیا جاتا ہے ۔بھاری بل بھیجنے کی یہ پریکٹس کے ای والے ہرماہ کر رہے ہیں ۔ہر ماہ بل پورایا روٹین سے زیادہ آرہا ہے¡ لیکن پھر بھی لوڈ شیڈنگ جاری رہتی ہے ۔اس ساری صورتحال میں حکومت کا کو ئی کردار نظر نہیں آرہا ،موجودہ حکومت ہی نہیں ماضی کی حکومتوں کا بھی یہی حال رہا ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔نہ شہریوں کے احتجاج کا کوئی اس پر اثر ہوتا ہے ۔
ساری صورتحال میں کراچی کے شہری پس رہے ہیں ۔کے ای کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ،ایم کیو ایم اپنے وقت کی طاقت ورترین جماعت تھی ۔وہ یہ مسئلہ حل کرواسکتی تھی ۔مسائل تو وہ دیگر بھی حل کرواسکتی تھی ،مگر اس کا ایجنڈاہی یہ نہیں تھا۔جماعت اسلامی کا ذکر کر نے سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ اس کے بارے میں یہ بات ہمیں ذہن میں رکھنی ہو گی کہ کسی کے لاکھ نظریاتی اختلافات ہوں لیکن جماعت اسلامی کے لوگ ایماندار ،شریف اور لوگوں کی خدمت کرنے والے لوگ ہیں ،لیکن ہمارے یہاں لوگ نظریاتی اختلافات کی بنیاد ہر اس کی مخلصانہ کاوشوں کو نہ صرف نظر انداز کر دیتے ہیں بلکہ اپنی ذہنی پستی کا بھی فراغ دلی سے اظہار کرتے ہیں ،حالانکہ ان ذہنی پستی کے حامل لوگوں کو ادراک کرنا چاہیے کہ کوئی تو مسیحا آیا جو ان کے مسائل حل کرانے کیلئے میدان میں ہے ۔اس پر فتن دور میں کوئی کسی کی بات سننے کو بھی تیار نہیں ۔یہ مسئلہ کوئی جماعت اسلامی کا تو نہیں ہے ؟یہ تو عوامی مسئلہ ہے ،اس کو حل ہونا چاہیے ۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن جو عوامی مسائل پر ہمیشہ میدان میں رہے ہیں ،انہوں نے شہرکراچی کے اس دیرینہ مسئلہ کو اٹھایا ۔ان کے پاس کے الیکٹرک سے متعلق تمام فیکٹ اینڈ فکر ہیں اور وہ مضبوط دلائل کے ساتھ ان پر بات بھی کرتے ہیں ۔
انہوں نے نیپرا میں بھی شہریوں کا مسئلہ بھر پور طریقے سے اٹھا یا ۔سپریم کورٹ میں بھی گئے ۔نواز دور میں گورنر ہاوس کے باہر انہوں ایک ہفتے سے زائد عرصے کا دھرنا بھی دیا ،لیکن اس وقت کے گورنر محمد زبیر بھی نہایت بے بس نکلے ۔ایک سفید ہاتھی اورطاقتور ادارے کے سامنے اتنی جدوجہد کرنا کوئی معمولی بات نہیں ۔کے ای کے ساتھ مذاکرت بھی ہوئے ۔اس تحریک کے نتیجے میں کے الیکٹرک نے ایک دو سرچارجز بھی ختم کیے ۔امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے بارہا اس بات کو دہرایا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کے الیکٹرک پیسہ دیتے ہے ،جبکہ ان کے کارکنوں کو بھی بھرتی کیا جاتا ہے ۔اسی لیے تمام جماعتیں عوامی مسئلہ پر خاموش رہتی ہیں۔
یہ کراچی کے ساتھ کتنا بڑا دھو کا ہے ۔یہ سب چیزیں سامنے آنے کے بعد بھی شہر ی اس تعداد میں جماعت اسلامی کا ساتھ نہیں دے رہے ،جو دینا چاہیے تھا ۔کے الیکٹر ک ہمیشہ سے بجلی کی طلب اور رسد رونا روتی ہے اور یہی رونا سنا کر شہریوں کو چپ کروادیا جاتا ہے ۔یہ کمپنی شہریوں سے کروڑوں روپے اضافی لیتی ہے ،جبکہ ابھی کے الیکٹرک کو کراچی کے صارفین کیلئے 2.86روپے بڑھانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سے پوچھنے ،جاننے اور اسے اس عمل سے روکنے والا کوئی نہیں ۔
کراچی میں سوشل میڈیا اور میڈیا پر لوڈ شیڈنگ کے اٹھنے والے شور پر پی ٹی آئی والے بھائیوں کو بھی جوش آیا جو اب تک خاموش تھے اور کے الیکٹر ک کے ہیڈ آفس کے سامنے بیٹھ گئے ،مگر ہمارے سوشل میڈیا والوں نے ابھی ان کی خوب درگت بنا ڈالی اور انہیں بتا یا کہ آپ لوگوں کا وزیر اعظم ،آپ لوگوں کا گورنر سندھ ،وزیر بجلی بھی آپ کا پھر بھی دھرنا ۔اب تو اختیار ات کا بھی کو ئی مسئلہ نہیں ،لوگ پی ٹی آئی کے اس عمل پر انگشت بدنداں ہو رہے ہیں ۔
جماعت اسلامی کے ہفتہ کوہونے والے دھرنے میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور حافظ نعیم نے پھرمطالبہ دھرایا ہے کہ کراچی کے صارفین کیلئے 2.86روپے بڑھانے کی اجازت ظلم ہے ،اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اور اوور بلنگ کوختم کی جائے ۔
کراچی شہر کی ولی وارث جماعت ایم کیوایم پاکستان آج کہیں نظر نہیں آرہی ،ہم سمجھتے ہیں کراچی کے شہریوںکو مسئلہ کے حل کیلئے قدم بڑھانے ہوں گے بجلی کا مسئلہ جماعت اسلامی کا نہیں کراچی کے ہر شہری کا مسئلہ ہے ۔