زین صدیقی
آج سے ایک سال قبل 6 فروری 2020 کو کراچی کا ایک روشن ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ڈوب گیا ۔اس ستارے
کےڈوبنے سے معاشرے میں ہمیں تاریکی محسوس ہونے لگی ۔ان سیکڑوں خاندانوں کی زندگیوں کی خوشیاں ماند پڑ گئیں ،جن کی شامیں اور صبحیں ان کے دم سے جگمگاتی تھیں۔
رحمت بھائی سماجی رہنما ہی نہیں ،بلند کردارعظیم انسان بھی تھے۔ان سے 24 سالہ رفاقت ٹوٹی تو گویا ہم خود ٹوٹ گئے۔انہوں نے خدمت کا جو بہترین شجر لگایا تھا،آج اسے سہارا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ان کی اس کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
رحمت بھائی رحمت ویلفیئر ٹرسٹ کے بانی اور چیئرمین تھے۔ ٹرسٹ کے دروازے پر جب بھی کوئی سوالی آیا انہوں نے اسے خالی نہیں لوٹایا ۔
جسمانی ساخت کے لحاظ سے وہ ناتواں ضرور تھے مگر ان کی کا عزم ،حوصلہ اور جذبہ ہمالیہ سے بھی مضبوط تھا ،کسی نے انہیں ایدھی سے مماثلت دی ،کسی نے مدرٹریسا جیسے جذبے کا مالک گردانا، مگر میں نے انہیں انتہائی قریب سے دیکھا وہ ،ان کے ساتھ 23سال دن رات کا تعلق رہا،وہ بے مثال شخصیت مالک تھے۔اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی مہمان آتا تو خود دفتر سے نکل جاتے اور اس کی تواضح کیلئے اشیا خرید لاتے ۔ کوئی مہمان واپس جاتا اوراسے ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہوتی تو دفتر کی مزکزی سڑک تک جا کر خود رکشہ یا ٹیکسی لے آتے،حالانکہ ان کے ارد کرد یہ کام کرنے والے لوگ ہر وقت موجود ہوتے تھے ۔
ہم یہ سب کچھ دیکھ کر حیران پوئے بغیر نہیں رہ پاتے تھے ۔رمضان میں مستحقین کو سیکڑوں راشن دینا ،ہر رمضان سیکڑوں لوگوں کو خود کھڑے ہو کر سحر وافطار ان کے گھروں تک پہنچانا ،درجن بھر بڑے اور چھوٹی جانوروں کی ہر سال عید قرباں پر قربانی کر کے مستحقین کے گھروں تک گوشت پہنچانا ۔لڑکیوں کی شادیوں کیلئے جہیز اور کھانوں کا اہتمام کرنا ،اسکولوں میں پڑھنے والے غریب بچوں کی فیسیں ادا کرنا۔ٹرسٹ کے تحت قائم رحمت الا قرا ہائی اسکول میں بچوں کو مفت تعلیم،کتابیں کاپیاں فرام کر نا ۔انہیں عیدی اور عید کے تحائف فراہم اور ان کی دینی تربیت کرنا یہ ان کے کام تھے ۔
ڈونرزرحمت بھائی پر بھر پور اعتماد کرتے تھے ۔ رحمت بھائی کی عمر تو 75 برس تھی،مگر ان جیسا حوصلہ اور عزم آج کے نوجوانوں میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ۔انتقال سے دوسال قبل ڈاکٹروں نے چلنے پھرنے سے منع کیا اور ہدایت پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جان کے خطرے کا اشارہ دیا تو انہوں نے جان کی پروا نہیں کی اور وہ خدمت کے عمل میں مصروف رہے ۔
رحمت بھائی کو زمانے کی کوئی فکر نہیں تھی۔انہوں نے اپنوں کی کبھی خدمت نہیں لی بلکہ اپنوں کی بھی خدمت کی۔رحمت بھائی کا مشن آج بھی جاری ہے۔حالات بہت مشکل ہیں ۔رحمت بھائی ہمیشہ ہم سے کہتے تھے کہ رحمت ٹرسٹ اللہ نے بنایا ہے،اللہ ہی اسے چلائے گا ۔ان کا مشن جاری ہے اور ان کے مخلص ساتھی اسے جاری رکھنے کی کوششیں کررہے ہیں ۔
وہ علاقائی مسائل پر بھی دل گرفتہ رہتے تھے۔اس حوالے سے وہ اکثران مسائل کو اخبارات کے ذریعے اجاگر کرتے رہتے تھے ۔ان مسائل میں لوڈشیڈنگ، علاقائی سرکاری اسکول کی بے قاعد گیاں،پانی کے بحران ،نالوں کی صفائی ،نالوں پر تجاوزات سمیت بارشوں سے ہونے والے نقصانات پر آواز اٹھاتے رہتے تھے۔
وہ انتہائی نفیس انسان تھے،بلند کردار تھے۔ زندگی بھر شادی نہیں کی تھی ،جب انہیں ہم ازراہ تفنن کچھ کہتے تو مسکراکر ٹال دیتے تھے ۔رحمت بھائی اور ان کی بے مثال خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
انہیں سانس کی تکلیف ہوئی،دل کا بھی عارضہ تھا۔ ایک سرکاری اسپتال چیک اپ کیلئے اپنے پیروں پرگئے۔وہاں سے چند گھنٹوں میں خالق حقیقی سے جا ملنے کی اطلاع آگئی ۔ان کے ساتھ گزرے روز شب اور لوگوں کیلئے ان کی خدمات کبھی نہیں بھلائی جا سکیں گی ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ رحمت بھائی کے درجات کو بلند فرمائے،ان کو جنت میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے،ان کے بعد ٹرسٹ کو چلانے والوں کو بھی استقامت عطا فرمائے ۔آمین