کراچی (نمائندہ رنگ نو )ہمدرد فائونڈیشن پاکستان کی صدر محترمہ سعدیہ راشد کی زیر صدارت شوریٰ ہمدرد کراچی کا اجلاس گزشتہ روز ہمدرد
کارپوریٹ ہیڈ آفس میں "احترام خواتین" کے موضوع پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں معروف صحافی زبیدہ مصطفیٰ صاحبہ کو بہ طور مہمان مقرر مدعو کیا گیا۔ نظامت کے فرائض ڈپٹی اسپیکر شوریٰ ہمدرد کرنل(ر) مختار احمد بٹ صاحب نے انجام دئیے۔
ابتدائی کلمات میں کرنل (ر) مختار احمد بٹ نے کہا کہ آج کا موضوع کئی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے خواتین کے ساتھ ناروا سلوک اور بداخلاقی قومی مزاج بن گئی ہے۔ یہ بہت تشویش ناک امر ہے اور اس پر ارباب اختیار کو سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہے سیاست دان ہوں یا عام شہری، خواتین سے معمولی نقطہ نظر کے اختلاف پر بھی اخلاق سے گری گفتگو کرنے پر کسی بھی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتے۔
مہمان مقرر زبیدہ مصطفیٰ نے کہاکہ تحریک پاکستان میں خواتین نے گراں قدر ملی خدمات انجام دی ہیں۔ ۱۹۴۷ء کے بعد سے مختلف شعبہ جات میں خواتین کا متحرک کردار نظر آتا ہے۔ البتہ ۸۰ کی دہائی سے خواتین کی نمائندگی بتدریج کم ہوتی گئی۔ قانون شکنی ملک میں کوئی برا فعل تصور نہیں کیا جاتا۔ سوشل میڈیا سے تو دیگر اقوام نے اپنے لوگوں میں شعور اُجاگر کیا ہے لیکن پاکستان میں سوشل میڈیا کے منفی استعمال نے اس پلیٹ فارم کی اہمیت کو کم کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پر سائبر ہراسگی کا شکار خواتین ہی ہوتی ہیں۔ مرد خصوصاً نوجوان طبقہ خواتین کی ذات پر کیچڑ اُچھالتے ہیں۔ زیادتی کی شکار خواتین کے لباس پر تنقید کرکے اُلٹا مورود الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر تنویر خالد نے کہاکہ خواتین کے ساتھ ناروا سلوک بہ طور قوم ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔عورت کی عزت محض اُس کے سماجی کردار وں کی بنیاد پر کی جاتی ہے بہ طور انسان نہیں۔خواتین کے احترام پر مضامین نصاب میں ہر سطح پر شامل کیے جانے چاہئیں۔قومی اسمبلی اور سینٹ میں احترام خواتین پر تحقیق کرنےکے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔
قدسیہ اکبرنے کہاکہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں زمانہ جدید کے مقابلےقدیم روایتی سوچ حاوی ہے۔جس کی وجہ سے آج کے جدید تقاضوں کی اہمیت کا ادراک کرتے افراد اور قدیم سماجی تصورات پرقائم لوگوں میں فکری ٹکرائو کی صورت حال ہے۔ سماج میں کنفیوزن پیدا ہوگئی ہے جو عورت دشمنی کا باعث بن گئی ہے۔ جدید زمانے کی عورت تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ خاندانی بہبود میں بھی فعال کردار ادا کررہی ہے ۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ اہل دانش اور سیاسی قائدین اس تصادم کے تدارک میں کچھ اقدامات اُٹھاتے، لیکن سیاسی عدم استحکام اور آپسی کشمکش کی بدولت ایسے ناعاقبت اندیش سیاست دان ابھرآئے ہیں جو خود فرسودہ تصورات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
ڈاکٹررضوانہ انصاری نے کہاکہ اسلامی معاشرہ ہونے کے باوجود کتنے افسوس کی بات ہےکہ آج کوئی ایسا مقام نہیں جہاں عورت محفوظ ہو۔ قانون بنالینا محض کاغذی کارروائی ہے۔ اصل کامیابی قانون کا بروقت اطلاق ہے۔ عورتوں کو علاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں جس کی وجہ سے اُن کے طبی مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
نوشابہ خلیل ستار نے کہاکہ اسلام سے دوری اور قوم کی فکری و شعوری تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ایسی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں جن سے آسانی سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ ایک نسل اسی سماجی بُرائی کے ہوتے ہوئے جوان ہوگئی ہے۔اب اُنہیں سمجھانا نہایت مشکل ہے۔ خواتین کو احساس دلایا جائے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں میں فرق نہ کریں۔
پروفیسر ڈاکٹر حکیم عبدالحنان نے کہاکہ ملک کی ترقی تب ہی ممکن ہے,جب خواتین اُس میں برابرحصہ ڈالیں۔ آج کی خواتین ہر شعبےمیں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔ دفاترمیں خواتین کی موجودگی سے آفس کا ماحول مہذب ہوتا ہے۔
اجلاس سے انجینئرسید محمد پرویز، سنیٹر عبدالحسیب خان، کموڈور(ر)سدید انور ملک، ڈاکٹر امجد جعفری، ڈاکٹرابوبکر شیخ اور شیخ محمد عثمان دموہی نے بھی اظہار خیال کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔