
واشنگٹن: غزہ پر جاری تباہ کن اسرائیلی حملوں کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی
وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ان کے تجویز کردہ 20 نکاتی امن منصوبے کو قبول کر لیا ہے۔
ٹرمپ نے اس پیش رفت کو ایک "تاریخی دن" قرار دیا اور کہا کہ اگر حماس بھی اس منصوبےپررضامند ہو جائے تو اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنائی جا سکتی ہے اور جنگ بندی فوری طور پر نافذ کی جا سکتی ہے۔ تاہم، انہوں نے فلسطینیوں کو سخت لہجے میں متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حماس نے تین دن کے اندر شرائط نہ مانیں تو اسرائیل کو طاقت کے استعمال کا "پورا حق" حاصل ہوگا، جس میں امریکہ "بھرپور معاونت" فراہم کرے گا۔
صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ عرب اور مسلم دنیا بھی غزہ کو "غیر عسکری زون" بنانے پر متفق ہو چکی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایک عبوری انتظامی ڈھانچہ قائم کیا جائے گا اور اسرائیلی فوج کے انخلا کے لیے ایک مرحلہ وار ٹائم لائن طے کی جائے گی۔
انہوں نے "بورڈ آف پیس" کے نام سے ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام کا بھی اعلان کیا، جس کے سربراہ وہ خود ہوں گے۔ اس ادارے میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سمیت متعدد مغربی شخصیات شامل ہوں گی، جو غزہ کی تعمیر نو اور مالی معاونت کی ذمہ دار ہوں گی — تاوقتیکہ فلسطینی اتھارٹی اپنا اصلاحاتی پروگرام مکمل کر لے۔
ٹرمپ نے اپنے منصوبے کو ایک "بڑی سفارتی کامیابی" کے طور پر پیش کیا، لیکن اس حقیقت کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو تاحال فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ یاد رہے کہ نیتن یاہو اس سے قبل اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے تصور کو "مغربی ممالک کی پاگل پن کی سوچ" قرار دے چکے ہیں۔
نیا امن منصوبہ بھی فلسطینی عوام کے بنیادی مطالبات — جیسے حقِ خود ارادیت اور ایک آزاد ریاست — کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے، اور اسرائیل کو مزید مراعات فراہم کرتا ہے۔
اپنی تقریر میں ٹرمپ نے امریکی صدر جو بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "ہمیشہ سوئے رہنے والے بائیڈن" غزہ کا مسئلہ کبھی حل نہ کر پاتے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر وہ اقتدار میں ہوتے تو یہ جنگ شروع ہی نہ ہوتی۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا منصوبہ نہ صرف فلسطینی عوام کو مزید بے اختیار کرتا ہے بلکہ اسرائیل کے لیے مزید رعایتوں کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہ پیش رفت ایک بار پھر واضح کرتی ہے کہ عالمی طاقتیں امن کے نام پر ایسے منصوبے سامنے لا رہی ہیں جن میں اصل فریق — یعنی فلسطینی عوام — کی آواز کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کیے بغیر کسی بھی امن منصوبے کو نہ پائیدار سمجھا جا سکتا ہے، نہ منصفانہ، اور نہ ہی قابلِ قبول۔



































