
تہران (ویب ڈیسک،خبرایجنسی،فوٹو فائل)وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین نےتہران میں غذائی تحفظ اورزرعی تعاون سے متعلق اعلیٰ سطح وزارتی
اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ جس کے نتیجے میں پاکستان اور ایران کے زرعی تجارتی تعلقات کو نئی جہت ملی۔
وزیر کے ہمراہ ڈائریکٹر جنرل ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن (ڈی پی پی) اور وزارت غذائی تحفظ و تحقیق کے جوائنٹ سیکرٹری بھی شریک تھے، اجلاس کی صدارت ایرانی وزیر زراعت غلام رضا نوروزی نے مشترکہ طور پر کی، جس میں دونوں ممالک کے اہم وزارتوں، تحقیقی اداروں اور تجارتی حکام کے نمائندوں نے شرکت کی۔رانا تنویر حسین نے ایران کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ اپنی چاول کی درآمدات کا بڑا حصہ پاکستان سے حاصل کرے۔ سرکاری خریداری کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کی درآمدات بھی اب زیادہ تر پاکستانی چاول پر انحصار کریں گی، جس سے پاکستان کیلئے ایک مستحکم اور مسلسل برآمدی منڈی کھل گئی ہے۔ پھلوں کے برآمدکنندگان کو درپیش دیرینہ مسائل کے حل کیلئے وزیر نے ٹھوس یقین دہانیاں حاصل کیں کہ آم کی برآمدات میں درپیش رکاوٹیں، خصوصاً درآمدی پرمٹ اور زرمبادلہ کی فراہمی کے مسائل جلد حل کیے جائیں گے۔ ان اقدامات کے بعد پاکستانی آم کی برآمدات ایران کو نمایاں طور پر بڑھ جائیں گی۔
وزیر نے اجلاس میں پاکستان کے لائیو اسٹاک اور گوشت کے شعبے کو بھی ترجیح دی۔ ایران اس بات پر رضامند ہوا کہ وہ گوشت کی تقریباً ساٹھ فیصد خریداری پاکستان سے کرے گا۔ اسی طرح ایران نے پاکستان سے مکئی کی بڑی مقدار درآمد کرنے پر بھی اتفاق کیا اور عزم ظاہر کیا کہ اس سے متعلقہ تکنیکی و عملیاتی مسائل کو فوری اور قلیل وقت میں حل کیا جائے گا۔
دونوں ممالک نے اس امر کو بھی تسلیم کیا کہ زراعت میں سائنسی بنیادوں پر تعاون ضروری ہے۔ اس مقصد کیلئے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (PARC) اور ایرانی تحقیقی اداروں کے درمیان اشتراک بڑھانے پر اتفاق ہوا، جو کہ فصلوں کی تحقیق، لائیو اسٹاک بریڈنگ، پانی کے انتظام اور کسانوں کی سہولت کیلئے جدت جیسے کلیدی شعبوں پر محیط ہوگا۔وزیر نے زرعی تجارت میں سہولت کیلئے وسیع اقدامات پر بھی اتفاق کیا جن میں کسٹمز کلیئرنس کے عمل کو تیز کرنا، گوداموں اور کولڈ چین نظام کی فراہمی، اور سرحدی انفراسٹرکچر کی بہتری شامل ہے تاکہ خراب ہونے والی اجناس بروقت اور معیاری حالت میں منڈیوں تک پہنچ سکیں۔




































