ارمین راشد
ایک موٹیویشنل اسپیکر کسی یونیورسٹی کے طلباء سےگفتگو کرتے ہوئے پوچھتےہیں کہ. "کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا
ہے"!۔۔اکثریت کا جواب ہاں میں ہوتا ہے۔۔پھر وہ کہتے ہیں " کہ فرداً فرداً اپنا مقصد حیات بتاتے جائیے"۔۔تو جواباً کچھ اسطرح کے مقاصد سامنے آتے ہیں۔۔ڈاکٹر یا انجینیئر بننا، وکیل یا بزنس میں بننا، یا کچھ کا ارادہ خدمت خلق کا بھی سامنے آتا ہے۔
لیکن ان تمام مقاصد کی اسپیکر صاحب نفی کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ مقصد حیات نہیں بلکہ اگر آپ یہ جان لیں کہ آخر میرا مقصد زندگی ہے کیا تو اس تک پہنچنے یا اسکی بنیاد کو استقلال بخشنے کی یہ سیڑھیاں ہیں۔ اس گفتگو کے بعد پھر جب وہ اپنے سوال کو دہراتے ہیں کہ آیا اب آپ جان پائے ہیں کہ آپکی زندگی کا مقصد کیا ہےتو سینکڑوں میں سے ایک ہاتھ بھی بلند نہیں ہوتا۔
تو گویا مقصد حیات کو پانا تو دور کی بات ہم اسکی بنیادی تعریف سے بھی پوری طرح آشنا نہیں ۔ان اسپیکر صاحب کی گفتگو سے مجھے اپنی عقلی و شعوری کیفیت بلکل صفر لگی، اب تک زندگی سے جو سیکھا اور تھوڑے بہت علم و شعور کی بدولت جو مقصد تھوڑا بہت واضح ہوا تھا وہ بھی دھندلا گیا۔ مقصد کا دھندلانا ہی اس بات کی دلیل تھی کہ وہ مقصد نہیں بلکہ منزل تھی۔ منزل کا جلد یا بدیر اختتام ہے، اصل میں تو اسکا حاصل ہی اسکا خاتمہ ہے۔ جیسے کسی مسافر کی منزل اس کے راستے کا تعین تو کرتی ہے ، وہ اسکے لیے سامان اور وسائل بھی اکٹھا کرتا ہے اور اس تک پہنچنے کی بساط بھر کوشش بھی کرتا ہے لیکن پھر منزل آجاتی ہے اور منزل کا حصول، اسکی ترجیحات، اسکی کوششوں اور اسکے سفر کا اختتام ثابت ہوتا ہے۔
یعنی منزل اور مقصد کا بنیادی فرق کچھ ایسا سامنےآتا ہےکہ منزل کا اختتام ہے اورمقصدتاحیات انسان کو اپنی کھوج کے نتیجے میں ایک مخصوص راہ کا راہی بنائے رکھتا ہے اور مسافر شاداں و فرحاں ، ثبات و استقلال سے اس راستے پر چل پڑتا ہے۔
لیکن اس راہ کا راہی بننا اور انجام۔کی پرواہ کیے بغیر چل پڑنا اتنا سہل نہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہےجب مقصد پوری طرح واضح ہو، اس حد تک واضح کہ سردو گرم حالات، خواہشات، نامساعد و ناخوشگوار واقعات اسے دھندلا نا سکیں۔ فکر وعمل کا اشتراک راستے کے کانٹوں اورسنگریزوں کے مقابلے میں مضبوط و پائیدار ہو۔ اس راہ کا راہی بننے کی سب سےپہلی منزل حاصل کی تمنا اور نتائج کے حصول سے بالاتر ہونا ہے کہ منزل کی جستجو کے بجائے مقصدیت کا واضح ہونا ہی منزل گردانا جائے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ اس راہ۔کا راہی بنا کیوں جائے یا بننا کیوں ضروری ہے؟؟ تو جواب یہ ہے کہ بدبودار خون کے لوتھڑے کی تخلیق سے اشرف المخلوقات تک پہنچنے کا راستہ اسی راہ سے ہوکر جاتا ہے۔ انسانیت کی معراج اسی سفر کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔
یہی فلسفہ مقصد حیات تھا جسکی بدولت بے چینی اور اضطراب نے معمولات زندگی سے نکال کر انسانیت کو عروج بخشا اور منزل غار حرا کی صورت میں سامنے آئ لیکن پھر جب انسانیت اپنے اعلی ترین عروج پر پہنچتی ہے تو منزل سے مقصد کی طرف روانہ ہوجاتی ہے نتیجتہً غار حرا سے روانگی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ بظاہر فراز سے نشیب کی طرف جانا انسانیت کی عظیم ترین معراج ٹھہرتی ہے تو یہی عروج انجام سے بے پرواہ، نامساعد واقعات ، سردو گرم حالات سے قطع نظر، فکر و عمل کے مضبوط و پائیدار اشتراک سے ، نتائج کے حصول اور حاصل کی تمنا سے بالا تر ہوکر مقصد سے روشناس کرواتا ہے۔
تو گویا غار حرا مقصد کی جانب بڑھنے کی پہلی منزل ثابت ہوتا ہےاورمسافر منزل بہ منزل طے کرتا ہوامقصد کو پانےکے لیےتاحیات اسی راہ کا راہی بن جاتا ہے۔ جسکے نتیجے میں انسانیت کی سب سے ، سب سے اعلی ترین معراج پہ نا صرف خود پہنچتا ہے بلکہ رہتی دنیا تک اس راہ کو اپنے نور سے مزین کر جاتا ہے۔نا صرف یہ بلکہ منزل بہ منزل مقصد کو پانے کا گر بھی کتاب کی صورت میں حوالے کر جاتا ہے۔
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
رہا ڈر نا بیڑے کو موج بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا