عظمیٰ پروین
سیدناابراہیم کی ہجرت ایک مثالی ہجرت تھی۔ تمام جنم بھومی اورآبائی روابط کاٹ کر، ہرطرح کی آسائشوں اوررفاقتوں کوخیربادکہہ کراپنی پوری ذات اورآنےوالےمستقبل کورب
تعالیٰ کےسپردکرکےبظاہرمشکل ترین حالات کوسینےسےلگالیا۔ اس سےبڑھ کرکوئی کسی کوکیاچاہےگا؟ یہاں ابرہیمؑ کی زندگی کےنہایتمثالی اوراعلیٰ وارفع طرزعمل پرکچھ کلام کرنامقصودہے۔ سیدنا کوبڑھاپےمیں عمربھرکی دعاؤں اورالتجاؤں کےبعدایک بیٹاعطا ہوتاہے۔ طویل انتظارکےبعد حاصل ہونےوالی اولادکےساتھ فطرتالگاؤ بھی بہت زیادہ ہوا کرتاہے۔ جب فرزندآپ کےساتھ چلنےپھرنےلگااورقریب تھاکہ زندگی کاساتھی بن جائے۔ ایک روزانہوں نےخواب میں دیکھاکہ
وہ اپنےاکلوتےبیٹےکوذبح کررہے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ سمجھ جاتےہیں کہ یہ رب کی طرف سےاشارہ ہےکہ بچےکی قربانی دے دو۔ بغیرکسی ترددکےآپ نے لبیک کہہ دیااورتعمیل کےلیےآمادہ ہو گئے۔
فرزندحلیم سےخواب کاذکرکیا تاکہ وہ بھی اطاعت امرکی مٹھاس کوپالے۔صالح بیٹےنے جزع فزع نہیں کی۔ ادب اورمحبت میں کمی نہیں کی، اپنی کمزویوں کومدنظررکھتےہوئے اوراس کارعظیم میں اللہ کریم کی معاونت طلب کرتےہوئےسر تسلیم خم کردیااورسارےمعاملے کواللہ کےسپردکردیا۔ایک بوڑھا شخص اپنےاکلوتےجگرگوشےکو منہ کےبل گراتاہےتاکہ ذبح کےلیےتیارکرلےاورلڑکابھی بےحس و حرکت گرجاتاہے۔ بات اب عمل تک آپہنچی ہےاورقریب ہےکہ چھری چل جائے۔رب کریم ان کے جذبات اورشعوری حالت کوخوب جانتاہے۔ باپ بیٹاجو کچھ کررہےہیں اس کی ادابالکل نرالی ہے۔جب اللہ بزرگ وبرترنےدیکھاہوگا کہ بوڑھاباپ اپنےارمانوں سے مانگےہوئےبیٹےکومحض ہماری خوشنودی پرقربان کرنےکےلیے تیارہوگیاہےاوربیٹابھی گلےپر چھری چلوانےکےلیےراضی ہےتو یہ منظردہکھ کرکیساکچھ دریائےرحمت نےجوش ماراہوگااور مالک کوان باپ بیٹوں پرکیسا کچھ پیارآیاہوگا،اس کابس تصور ہی کیاجاسکتاہے۔
الفاظ میں اتنادم کہاں کہ پوری کیفیت کااحاطہ کرسکیں۔اللہ کوتوبندگی واطاعت مطلوب ہے۔ جب نفس میں ایسی کوئی بات نہ رہی جوحکم الٰہی سے عزیزترہوتومقصدامتحان پوراہو گیا۔ ایک مینڈھاحکم ر بی سے چھری نیچےآگیااورخداکے خلیل نےاسےفرزندکےبدلےذبح کردیا۔
اللہ رب العزت نےایک عظیم کام پران کوآمادہ کرکےایک انوکھی قربانی پران کوصبردےکران کو انعام کاحقداربنادیااوران کےذکر کودوام بخش دیا۔ ہربقرعیدپر قربانی جاری ہوگ۔ یہ اس عظیم واقعہ دائمی یادگار
ہےجس کےاندرایمان اپنےعروج پر نظرآتاہے۔جس میں اطاعت کی بلندی عظمت اورحسن نظرآتاہے۔
امت اس قربانی کی یادتازہ کرتی رہتی ہےتاکہ وہ اس نظریہ حیات اورعقائدو وایمانیات کا اچھی طرح ادراک کرسکےجو ملت ابراہیمی کی میراث ہیں۔
دین اسلام کےسچےپیرو صرف وہی لوگ ہیں جودل وجان سے اس کےوفادارہیں۔ جنہوں نےاپنی پوری شخصیت کواس میں گم کردیاجواپنی کسی چیزکوحتیٰ کہ جان اوراولادتک کواس کے مقابلےمیں عزیزترنہیں رکھتے۔غورکامقام ہےکہ آسمان وزمین میں جوکچھ ہےاللہ کاہے۔انسان خوداللہ کی مخلوق ہےجن چیزوں سےانسان دنیامیں کام لیتاہےوہ سب اللہ کریم کی عنایت کردہ ہیں۔ اس لیےعدل کا تقاضااورعقل کافیصلہ ہےکہ شعوری زندگی میں بھی ہمارا سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کےلیے ہو۔ ہمارےدل ودماغ کی قابلیتیں جسم وجان کی قوتیں، اوقات اورمحنتیں اسی کوشش میں صرف ہوں کہ خداکی مرضی ہمارےہاتھوں پوری ہو۔
ہم نفس کی بندگی، خاندان کی، برادری کی، دوستوں کی، سوسائٹی کی اورحکومت کی بندگی کواپنی زندگی سےپوری طرح خارج کردیں۔ ہماری نفرت ومحبت میں نفسانیت کاکوئی حصہ شامل نہ رہے۔ پیٹ اورنفس سمیت ہم جس کودنیامیں جوکچھ دیں اس لیےدیں کہ خدانےاسکاحق مقرر کیاہےجوکچھ روکیں اس لیے روکیں کہ اللہ کریم نےاس کے روکنےکاحکم دیاہے۔ اس حیثیت سےہمارےاندرجوبھی کمی ہےساری فکریں چھوڑکربس اسی کمی کوپوراکرنےکی فکرساری فکروں پرمقدم ہونی چاہیے۔ احکام الٰہی جوبظاہرہمیں مشکل محسوس ہورہےہوتےہیں ،دراصل ان میں ہمارےلیےہی ترقی وکامیابی پوشیدہ ہوتی ہے۔اللہ توبےنیازاورہرطرح کی احتیاط سےپاک ہےجوہدایات اس
نےبھیجی ہیں، ان پرعمل پیراہو کرہی انسان صراط مستقیم پر گامزن ہوسکتاہےاوردنیاوآخرت کی فلاح پاسکتاہے۔