رنگ نو ڈیسک
جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کرگئے ۔انااللہ وانا الیہ راجعون
پاکستانی سائسندان اورپاکستانی ایٹم بم کے خالق ڈاکٹرعبد القدیرخان یکم اپریل 1936کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر بھوپال میں میں پیدا ہوئے۔عبد القدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان لوٹ آئےـ
عبد القدیر خان ہالینڈ نےماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر "انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز” کے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا۔ بعدازاں اس ادارے کا نام صدریاکستان جنرل محمد ضیاءالحق نے یکم مئی 1981ء کو تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ڈاکٹرعبدلقدیر خان نے نومبر 2000ء میں ککسٹ نامی درسگاہ کی بنیاد رکھی۔
عبدالقدیرخان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا ،لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے عبدالقدیر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام کتابوں میں موجود ہیں ،جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیاـ ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔
مئی 1998ء کوڈاکٹر عبد القدیر خان نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلے میں چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کئے ـاس موقع پر عبد القدیر خان نے پورے عالم کو پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ یوں ڈاکٹر عبد القدیر خان پوری دنیا میں مقبول عام ہوۓ
سابق صدر جنرل (ر)پرویزمشرف دورمیں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹرعبدالقدیر نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظربند رہے۔ انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔
1993ء میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔14 اگست 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی انہیں عطا کیا گیا۔
ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے سیچٹ sachet کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنایا ـ جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم عمل ہے۔