ریطہ طارق
زندگی ایک بار پھرملی ہے،رمضان کا تحفہ پھرسےموسم بہار بن کر آیا ہے۔ نیکیوں کےسمندر میں پھرغوطہ لگانا ہے۔ آئیں
رمضان کا استقبال کریں۔ ماضی کی گرد جھاڑ کر رینیو کریں،حال کی پیمائش کریں کہ وہ بھی کتنا ہے کب تک ہے۔.
وہی ساعت جو پہلے گزری اور ہر سال گزری، پچھلےرمضان میں کتنی نیکیاں کمائی تھیں کتنی ضائع کردی ہیں اب تک، عمر رواں دواں ہے،کاش یہ جان سکیں کہ زندگی کی شاہراہ پر کونسے رستے دھڑکن رک جائے، کاش پہچان سکیں کہ زندگی کی ابدی حقیقت اس انمول تحفے کی معراج رمضان کی مبارک گھڑی آرہی ہے اس ابرِ رحمت میں بھیگ بھیگ جائیں، اس کے ہر قطرے سے سیراب ہوجائیں، اس کا ہر پل ہر لمحہ خود میں سیراب کردیں۔.
ماضی کے سمندر میں ہر آنے والا لمحہ دن بدن تحلیل ہورہا ہے،برف کو پگھلادینے والا سورج روز بہت کچھ پگھلاکر اپنا کام سر انجام دے رہا ہے رک سکا ہے نہ رکے گا وقت کے اپنے پاس کوئ مہلت نہیں ہے، اسے تھامنے کے لیے ہمارے پاس کچھ ہےاگر تو آنے والی نئی سیل ہے،لوٹ کر اپنا سرمایہ بڑھانا ہے ۔ منافع حاصل کرنا ہے۔ اپنا اسٹیٹس بدل لیں۔ کم وقت میں زیادہ منافع چاہیے تو قناعت پسند بن جائیں۔.
دل کو ہربغض وعداوت سےپاک کرلیں اوراس کےساتھ بہترین تیاری اپنے گھروں کو پاک صاف کرلیں۔ہررات نئے دن کے بعد سیاہی لپیٹ لیتی ہےاور دن رات کےپردے سے نکل آتا ہےاور ہم سے التجا کرتا ہے"چلو کہ میرے ہر لمحے کو نیکیوں میں غرق کردو،خدا کی محبت میں ہر پل کوغنیمت سمجھ کر گزارو، اس گھڑی کا سفر قرآن سے جڑنے پر معمور کرلو،میں دن ہوں پھر پلٹ کر نہ آؤں گا اگلے دن بھی نیا ہوگا اور رات بھی نئی ہوگی۔".
کتنی بےرخی ہے کہ ہمیں دنیا کی مادی چیزوں کی فکر لاحق ہوتی ہے مگر ہماری نگاہ میں گزرنے والے اوقات سستے ہوتے ہیں جبکہ سب سے قیمتی وقت ہے وہ جو اللہ نے آپ کی رحمت سے دے رکھا ہے، لمحے سیکنڈ میں منٹ میں گھنٹے اور پھر دن کے بعد مہینوں سالوں غرض صدیوں میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ان سب میں محاسبہ کتنا ہوتا ہے کب کیا ہوا تھا، نفس کس طرح کہاں پر چلا تھا کیا پایا تھا کیا کھویا تھا کیا کچھ پچھتاوے بھی ہیں؟؟؟
کچھ اصلاح کے مرحلے بھی ہیں یا وہی روش جس کے عوض ہمیں خسارےہی حاصل ہوئے؟ ہمارے اخلاق میں کیا تبدیلی رونما ہوئی؟
ہم اس رمضان کا استقبال کیسے کریں گے؟ کیوں کریں گے؟ اس پہلو سےکئی باتیں نکلتی ہیں۔دل کو صاف کرکے... کیونکہ گرد آلوددل کے ساتھ ہماری عبادت رب العزت پسند نہ کرے گا۔.
اپنےآپ کو سنوار کر...عاجزی، اعلیٰ ظرفی، محبت، یگانگت، چشم پوشی،قناعت، تقویٰ،صلہ رحمی، فیاضی، قربانی، صبرواستقامت جیسے ہیرے موتی سے اپنے سفر کا لبادہ سجالینا۔ کیونکہ ان نگینوں کے بنا روکھی پھیکی عبادت اس کھانے کی طرح ہوگی جیسے کوئی ذائقہ نہ ہو۔ عبادت میں خشوع و خضوع پیدا کرنا تاکہ ہمیں یہ احساس ہو کہ ہم جس کی عبادت کررہے ہیں اس کا تعلق ہماری روحانی عمارت سے ہے۔ ایک تربیت ہونا کہ آئندہ پورے سال ہم ایسی ہی عبادت کے متمنی ہوں گے۔ ایسے تلاوت کرنا اور روانی رکھنا کہ دل میں اترتی ہر آیت اس کا مفہوم ہمیں اپنی گرفت میں لےلے۔ اس سحر میں ہمارے دل اتنے نرم ہوجائیں کہ اقامت دین کی روح اپنے رستے کشید کرنے لگیں، جہاد کے جذبے جنم لیتے رہیں۔.
یتیم مسکین اور اپنے سے نیچے انسانیت کے درد کا مسیحا بن جانےوالی عبادت ہمیں راہ خدا کے لیے خرچ کرنے والا بنادے۔ زندگی کی آغوش میں موت کی یاد ہمارے آخرت کی فکر سے وابستہ رکھے.
ان گنت ایسے مراحل بھی آتے ہیں جب رمضان میں ہماری کیفیت عام دنوں سے ہٹ کر ہوتی ہے۔اسے رمضان کے بعد بھی محسوس کرنا کہ یہ تربیتی ورک شاپ ہمیں فیض پہنچاتی رہے.
ذرا سوچئے!
اس مناجات کے مہینے کی برکت کا بھی کیا کہنا جب شیطان بھی بند کردیئےجاتے ہیں، خلوت کے شب و روز میں قرب الہیٰ پانا کتنا آسان ہوجاتا ہے۔ اپنی ہی لگاتی صدا کی باز گشت سے مستفید ہونا، دستک دے کر اس کی خوشنودی حاصل کرنا جو ہر طرف سے اپنے در وا کیے بیٹھا ہمیں تاک رہا ہے۔.
ذراسوچئے
محبت کی کتنی بڑی ڈیل ہے نا۔.
اپنی امانت،عہد وفا کی ذمہ داری محسوس کرنے کا نادر موقع ہے،جس تشخص کو ہم نے اپنی قوم میں کھودیا اسلام سے بیگانہ کردیا اسے اس کی جگہ پہچانے کا قیمتی موقع ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ ہی اچھی لگتی ہے۔وہ خودی جو ہم سارا سال اپنے آپ میں نہ ڈھونڈ سکے اس خودی کو اعتماد کو بحال کرنے کا بہترین موقع ہے۔انفرادی و اجتماعی فرائض سمجھنے کا نادر موقع ہاتھ نہ جانے دیں۔.
اپنے دل کو یکسو کرکے اللہ رب العالمین کی وحدت اپنے نفس پر طاری کرکےتو دیکھیں ضرور پھرہم رمضان کی روح اپنے دل میں جذب کرسکیں گےوگرنہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔.