ا
انعم غفران
پیارے ہم وطنوں !السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کسی بھی قوم کی ترقی وکامیابی کا راز صرف اورصرف تعلیم ہےکیونکہ تعلیم سےانسانوں میں شعور پیدا ہوتا ہے۔ حق وباطل کےدرمیان فرق واضح ہوتا ہے۔ نیز زندگی گزارنے کے ہراچھے اور برے پہلوؤں کے بارے میں معلومات فرہم ہوتی ہے اور ان سب معلومات حاصل کرنےکےلیے ضروری ہےکہ ہم تعلیم اپنی قومی زبان میں حاصل کریں تاکہ ہم اپنے حاصل کردہ علم کومکمل طریقے سےسمجھ سکیں اوراس پر عمل کر سکیں ۔ ہماراعلم صرف یاد کرکے امتحان دینے تک کے لیےمحدود نہ رہ جائے۔ قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب توہمیں اپنے رب سے بھی ملتی ہے جس کی سب سے اچھی مثال اللہ پاک کی نازل کردہ آخری کتاب قرآن مجید ہےجو اللہ تعالی نےعرب کی قومی زبان عربی میں نازل کی ہےتاکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا پیغام پہنچانے میں دشواری کا سامنا نہ ہو۔ دنیا بھر کےماہرین تعلیم اس بارے میں ہم خیال ہیں کہ کسی بھی قوم کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت اس کی قومی زبان میں ہی موزوں ہوتی ہے،ہمارے ملک پاکستان کی قومی زبان اردو ہےجو ہمارافخر ہونا چاہیےٓتھا مگر افسوس کے ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں میں تو اردو زبان میں تعلیم دی جارہی ہے لیکن ناقص معیار تعلیم کی وجہ سےپاکستانی طلباء کی ایک بڑی تعداد غیرسرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر ہی ہے غیر سرکاری تعلیمی ادارے انگلش مڈیم ہیں جہاں کچھ مضامین کے علاوہ زیادہ تر مضامین انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ بعض تعلیمی اداروں میں تو سوائے اردو مضمون کےاورکوئی مضمون اردومیں نہیں پڑھایا جاتا، یہی وجہ ہے کے طلباء کی ایک بڑی تعداد نہ تو انگلش میں مہارت رکھتی ہے اور نہ اردو میں اور طلباء حاصل کردہ علم کو مکمل طریقے سے سمجھ نہیں پاتے ہیں ۔
قومی زبان آپ کی پہچان ہے۔آپ کی شناخت ہے۔ ایک دوسرے کو اپنی بات اپنےاحساسات بتانے کا ذریعہ ہے۔ آپ پاکستان کے کسی بھی حصے میں چلے جایں بول چال کے لیے اردو زبان کا ہی استعمال کر تےہیں لیکن تعلیم حاصل کرنے کےلیے انگریزی زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ انگریزی زبان میں ملنے والا لیکچر طلباء کو سمجھنے میں بہت دشواری ہوتی ہےاور اس کا نتیجہ بہت ہی خطرناک صورت حال اختیار کرجاتا ہے طلباء پڑھ لکھ کر اسناد تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب وہ اپنی نوکری کے سلسلے میں یایہ کہہ لیں کہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو بہت مشکالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،وجہ پاکستان کی دفتری زبان انگریزی ہے،جہاں غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء پھر بھی قدم جمالیتے ہیں لیکن سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباءکو بہت مشکل سے گزرنا پڑتا ہے یا کچھ کو انگلش لینگویج کورس کرکے اپنی انگلش کو بہتر کرنا پڑتا ہے جس کےلیے اچھی خاصی فیس درکار ہوتی ہے فیس کی اداٸیگی آج کے مہنگائی کے دورمیں ہرکسی کے بس کی بات نہیں ۔ بہت سے طلباء مہارت تو رکھتے ہیں لیکن غیر ملکی زبان راٸج ہونے کی وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کو دوسروں تک مکمل طریقے سے نہیں پہنچاپاتےاورترقی اور کامیابی کے میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔21مارچ1948 ڈھاکہ میں قاٸداعظم محمد علی جناح نے ایک خطاب کے دروان فرمایا:میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی اورصرف اردو ہوگی۔ اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پرگواہ ہے ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی اورکام کرسکتی ہے، پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہےوہ صرف اور صرف اردو ہوگی۔ 8ستمبر 2015 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب *جواد ایس خواجہ نے قومی زبان اردو کو پاکستان میں سرکاری دفتری اورعدالتی زبان کے طور پر راٸج کرنے کا فیصلہ صادر کیاتھا اور کہا تھا کہ قومی زبان اردو کو دفتری اور عدالتی زبان بنانے کے لیے جلدازجلد عملی اقدامات کیےجاٸیں مگر آج آٹھ سال کا عرصہ گزرجانے کے بعد بھی کوئی اقدامات ہوتے نظر نہیں آتے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنی زبان اردو کے نفاذ کے لیے کوشش کریں ۔ خاص کر اپنی نوجوان نسل میں اس کی اہمیت کو اجاگر کروائیں تاکہ ان کو بھی اس زبان سےمحبت ہو اس کی قدر ہو اور وہ بھی اپنی زبان کو فروخت دینے کےلیے گامزن ہوں اس زبان کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کریں ۔