روزینہ خورشید
راتوں رات ہمیں جس طرح یہ خبر سننے کو ملی کہ سندھ گورنمنٹ نےیونیسف کے ساتھ مل کر صوبےمیں"ہیومن ملک بینک" یعنی "ماؤں کے
دودھ کو جمع کرنے کا ادارہ" قائم کر دیا ہے۔ اسی طرح یہ خبر بھی مل گئی کہ تا حکم ثانی اس ادارے کو بند کرنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے کیونکہ معاملہ اب اسلامی نظریاتی کونسل میں پیش ہے ۔
حیرت اس بات کی ہے کہ کیا اتنے حساس معاملے پر فیصلہ سازی سے پہلے علماء کرام سے اچھی طرح مشاورت نہیں کی گئی تھی،اگر کی بھی گئی تھی توکیا انہوں نے شریعت کے مطابق تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد "مشروط اجازت" نہیں دی تھی؟ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ان سوالات کا جواب طلب کریں لیکن جن چیزوں کے بارے میں قرآنی احکام واضح ہیں حیرت ہوتی ہے کہ اس میں اگر ،مگر ایسے، ویسے، یوں ،فلاں ،اس طرح کی تاویلات پیش کیوں کی جاتی ہیں ۔
یہ توسب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ کہیں سےبھی تہذیب یافتہ کہلانے کےلائق نہیں ہے۔ کیا لگتا ہے کہ اس "ملک بینک "میں دودھ جمع کرانے کے لئے کھاتے پیتے گھرانوں کی پڑھی لکھی لبرل خواتین آیا کریں گی۔۔۔۔ ہرگز نہیں یہاں وہی بھوک سے بلکتے بچوں کی کمزور اور مجبور ماں اپنے بڑے بچوں کے منہ میں روٹی کا نوالہ ڈالنے کے لیے اپنے نوزائیدہ بچوں کا حق بیچنے آئے گی۔ اس کے علاوہ جس ملک میں انسانی اعضاءکو فروخت کرنے کا غیر قانونی کاروبار ہوتا ہو وہاں ماؤں کے دودھ بیچنے کا کاروبار شروع کرنے میں کیا دقت ہوگی؟
تیسری بات جس ملک میں گدھے کے گوشت کو گائے کا گوشت کہہ کر بیچا جاتا ہو ،گائے کے دودھ میں ملاوٹ سرعام ہوتی ہو تو کیا گارنٹی ہے کہ ماؤں کا دودھ بھی خالص ہوگا اور اس میں کسی اور دودھ کی ملاوٹ نہ کی جا رہی ہوگی۔ تاویلیں یہ پیش کی جاتی ہیں کہ پری میچور بچوں کے لیے ماں کے دودھ کا حصول مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ایک تو ان کی ماؤں کا دودھ نہیں اترتا اور دوسرا بچے کا نظام انہظام کسی اور دودھ کو قبول نہیں کرتا۔
یہ تاویلات تو ہرلحاظ سے رد کیے جانےکےلائق ہیں کیونکہ اول توقدرت بچے کے دنیا میں آنےسے پہلے ہی اس کے رزق کا انتظام کر دیتی ہے، ماں خود اس لائق ہوتی ہے کہ بچے کو اپنا دودھ چمچ یا ڈراپر کے ذریعے پلا سکے، دوسرے یہ کہ اگر کسی وجہ سے ماں اس لائق نہ ہو تو ان پری میچور بچوں کے لیے خاندان والے خود ہی بہترین انتظام کر لیتے ہیں ۔مشاہدے میں آیا ہے لوگ خود ہی کسی عورت کو حسب نسب دیکھ کر اجرت پر رکھ لیتے ہیں کیونکہ ظاہر ہے وہ بچے کی رضاعی والدہ اور اس کے بچے رضاعی بھائی بہن جائیں گے ۔
ویسے بھی صرف چند ہفتوں کی بات ہوتی ہے پھر بچوں کو بکری کے دودھ میں بھی پانی ملا کر دیا جاتا ہے تو وہ ہضم کر لیتے ہیں اس کے لئے اتنے بکھیڑوں کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔۔ اب بات کرتے ہیں کہ جن بچوں کو ملک بینک سے دودھ پلایا جائے گا جب وہ جوان ہوں گے تو نکاح کرتے وقت انھیں ایک مشکل مرحلہ درپیش ہوگا ۔۔۔۔کیونکہ اگر لڑکا اور لڑکی دونوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہو تو وہ رضاعی بھائی بہن بن جائیں گے جن کے درمیان نکاح حرام ہے ۔ اس کے لئے درست معلومات کا حصول اور ریکارڈ کی مکمل چھان بین جوۓ شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ جس ملک میں سرکاری دفتر میں آگ لگنے سے سارا ریکارڈ جل جاتا ہو، بااثر ذرائع پورا ڈیٹا غائب کر دیا کرتے ہوں، جہاں رشوت کے ذریعے بلڈ رپورٹس تک میں تبدیل کر دی جاتی ہو وہاں یہ یقین کیسے کر لیں کہ ان رضاعی ماؤں کا ریکارڈ ٹھیک رکھا جائے گا ۔تھوڑے سے فائدے کے لیے زیادہ نقصان کا سودا کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟اگر ہم قرآن مجید سے رہنمائی لیں تو شراب کی حرمت سے متعلق ہمیں یہ آیت ملتی ہے۔
ترجمہ: "لوگ آپ سےشراب اورجوئےکامسئلہ پوچھتےہیں آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اورلوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن ان کا گناہ ان کےنفع سے بہت زیادہ ہے "
(سورہ البقرہ ,ایت 219 )
یہ آیت ہمارے لئے زندگی کے ہر معاملے میں مشعل راہ ہےلہذاسندھ گورنمنٹ کو چاہیے کہ ملک بینک کھولنے کےبجائے خواتین کے صحت کے مراکز کو بہتر بنائیں۔ ہسپتالوں کو نئی ٹیکنالوجی فراہم کریں تا کہ طبی لحاظ سے کسی بھی قسم کی پیچیدگی کا فوری سدباب کیا جا سکے۔اور لوگوں خصوصاً ماؤں کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے کیونکہ اکثر پہلی بار ماں بننے والی خواتین لاعلمی کی وجہ سے یا پھر ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے پری میچور بچے جنم دیتی ہیں۔
سندھ حکومت کے پاس اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینی چاہئے ۔خصوصاً خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود، ان کی تعلیم و تربیت اورصحت سے متعلق شعبوں میں بھرپور کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ماں اور بچے جب دونوں صحت مند ہوں گے تو کسی ہیومن ملک بینک کی ضرورت نہیں ہوگی۔