ڈاکٹر طارق شہزاد تبسم (شجاع آباد)
ادب کے دورِ جدید کا عظیم شہرہ آفاق جس کی نوامی شوق ہمیشہ اپنے پڑھنے والوں کے دلوں کو گرماتی رہے
گی۔ فطرت نے توصیف و تخلیق حسن کیلئے منتخب کیا اور اس کے بیدار ذہن اور حساس دل کو دردواندوہ کے سرمایہ سے نوازا۔ اجتماعی و ملی درد کے علاوہ قدرت نے اسے ذاتی درد کا سرمایہ عطا کرنے میں بھی کسی طرح بخل سے کام نہیں لیا ۔ شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا ۔ طالب علم کی حیثیت سے تمام مضامین مطالعہ میں نمایاں حیثیت حاصل کرتا رہا ، مگر فارسی ، اردو زبان و ادب میں معلومات زیادہ رکھتے تھے ۔ا ن کی شاعری میں منظرہ نگاری ، پیکرہ تراشی اور وصف حسن ہے۔ اپنے اوّلین دورہ شاعری میں شاعر طبعاً مروجہ اسلوب شعر یعنی سبق”دیوانی “ کا مقلد نظر آتا ہے اور عصر ِ جدید کے لکھنے والوں کے اسالیب کا اثر بھی اِ س کے طالب علموں کے کلام میں نظر آتا ہے ۔
شاعر تقریباً 20برس کی عمر میں خوش بینی اور خوش ذوقی سے سرشار رہا ۔
شعر کہنا روح کا وجدان ہے اور۔۔۔۔ موسیقی فرشتوں کی زبان ہے کثیف مادہ ۔۔۔ اور اس کی ترتیب ۔۔۔ دنوں ۔۔۔ بے شک مٹ جائیں گے اور بے رحم ہوائیں میرانام ونشان اُڑالے جائیں گی لیکن میری روح وہ ہمیشہ ۔۔۔ بے نام کیفیتوں ، زاویوں میں ، تیر محبت (شعر) کے گیت گاتی رہے گی۔
غزل ، نظم جس نے سعدی اور حافظ کے دیس میں جنم گرجے ۔۔۔ آبیاری کیلئے دل دُکھی اور میر تقی میر کا خون جگر پسند آیا آج بھی ۔۔۔۔اُردو شاعری کا سب سے بڑ اسرمایہ افتخار ہے ۔ آج بھی ۔۔۔جب کوئی بے نام کیفیت کسی سانچے میں ڈھلنے سے انکار کردے تو عشق کا سُوز اور محبت کی جدت ا ور پوری دلکشی اور محبت کی حدت اور پوری دلکشی اور جاذبیت کے ساتھ یہ حُسنِ تغزل کے پیکر میں سمو دیتے ہیں ۔
زندہ شاعری کرنے والے شاعر مرا نہیں کرتے ۔ عیش شجاع آبادی آج بھی اپنی شاعری کے تناظر سانس لے رہا ہے ۔ زندہ احساس کے لوگ اُسے ہمیشہ ہمیشہ زندہ محسوس کرتے ہیں ۔ عیش شجا ع آبادی کی زندگی ایک ایسا مُحدب شیشہ ہے جس کے کئی پہلو ہیں اور جس پر نظر کیجئے وہ ایک عجیب و غریب لیکن انتہائی پیار ی رنگا رنگ شخصیت کا مالک تھا ۔ وہ ایک خوبصورت شخص رعنائیاں اس کی بلائیں لیتی تھیں ۔ غرور حسن نے اس میں عاشق کے محبوب بننے کا جذبہ پیدا کردیا تھا ۔ چاہے جذبے کاجذبہ تو ہر ذی روح میں موجود ہوتا ہے لیکن اس شخص میں یہ جذبہ زیست کی حدوں کو چھوتا تھا ۔ عیش شجاع آبادی کی زندگی کی طرح ادب پر بھی ان کی انفرادیت کی گہری چھاپ ہے ۔ انہوں نے نظم ونثر دونوں میںہمیشہ نئی راہیں تراشنے اور نئے اُفق دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کم سنی میں شاعری کا آغاز کیا جس زمانے میں وہ مدرسے پڑھ رہے تھے ان کے گھر پر شعر وسخن کی محفلیں بر پا ہوتی رہتی تھیں ۔ ان کے والد میاں محمد احمد بخش اردو اور فارسی کے بڑے اچھے شاعر تھے ۔ والد کی محبت اور اُن کی بہترین علمی و ادبی موروثی تھی ۔
شاعری کا آغاز اکثر دوسرے شعراءکی طرح غزل سے ہوا اور دوسری جماعت میں بھی غزل لکھ کر جب اپنے والد کو دکھائی تو انہوںنے ان کی حوصلہ افزائی کرکے ان کے شوق کو مسمیز کیا ۔
جنوبی پنجاب کی ادبی تاریخ میں یہاں کے ادبی اداروں کو بڑی اہمیت حاصل ہے بلکہ درحقیقت یہاں کے پورے ادب کی تاریخ انہی اداروں کے گرد گھومتی ہے ان اداروں نے اپنے اپنے دور میں ادب کو پروان چڑھاتے اور ترقی دینے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ ادبی محفلوںاور تنقید کی محفلوں کے ذریعے اردو زبان کی ترویج کی نئے نئے قلمکار پیدا کیے۔
عیش شجاع آبادی نے اپنی شاعری کا آغاز عنوان شباب میں ہی کردیا تھا ۔ یہی وجہ ہے ان کی پرانی غزلوں میں کہیں کہیں بلبلِ جام و سپو اور حُسن ِ شباب کی چاسنی سے لبریز روایتی شاعری بھی ملتی ہے، لیکن بنیادی طور پر چونکہ وہ راسخ العقیدہ اور باعمل مسلمان تھے اس لیے ان کے زیادہ تر کلام میں صوفیانہ رنگ اور تصوف کی مٹھاس کا احساس ملتا ہے ۔ مثلا ً!
”چھیڑ دیتا ہوں ساز ذکرِ حبیب
جب طبیعت حلول ہوتی ہے “
عیش شجاع آبادی کی شاعری میں کچھ رنگ تیکھے ، کچھ شوخ اور کچھ مدہم ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی غزل میں حسن وجمال ، جذبات ، احساسا ت ، تفکر اور کسی حد تک تصوف کے عناصر ایک ہی لڑی میں پڑے ملتے ہیں ۔ ان کے اشعار میں لفظوں کی روانی ، لہروں کا ترنم، موسیقیت اور خیالات کی جولانی نے ایک ناقابل بیاں کیفیت پید ا کردی ہے ۔
یہ کمال اردو کے بہت کم شعراءکو حاصل رہا ہے ان کی شخصیت اور فن کا بھی جلترنگ پڑھنے والوں کو ایک ایسی وادی میں لے جاتا ہے جہاں جمالیاتی اور محسوساتی اظہار کی ہلکی ہلکی بارش سا اپنا وجود گھلتا محسوس ہوتا ہے ۔
عیش شجاع آبادی کی شاعری واردات کلیاتی شاعری ہے ۔ ان کی شاعری میں ہجرو وصال ، حسن وعشق کے تذکرے عام ہیں ۔ ان کی اشعری میں بظاہر حسن وعشق مٹے اور منیا کی شاعری نظر آتی ہے ، لیکن عیش کے ہاں تفکر کا عنصر عروج پر ہے ۔
المختصر ! ان کی شاعری میں درد ہے ، مگر مایوسی کہیں نہیں وہ بد ترین حالات کے خلاف اپنی شدید نفرت کا اظہار کرتا ہے لیکن کبھی نااُمید نہ ہونا اس کامیابی ہے کہ بشریت ایک نہ ایک دن ضرور سیاسی ، نسلی ، مَذہبی ، لسانی اور جغرافیائی حد بندیوں کے تعصبات کی لعنت سے حاصل کرے گی اور انسانیت کا قانون مسلم مروج ہوگا۔ شاعری کا یہ رجائی پہلو دفتر خلوق میں زیادہ نمایاں ہے ” تاریخ دیکھ کر معلوم ہوتا ہے “ کہ زندگی حق ہے دوسروں کی زندگی میں مانع ہونا بھی حق ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا قوت کی پابند ہے ، لیکن عقل اس امر پر راضی نہیں ہوتی ۔ قوت حق میں ہے اور یہ حقیقت آہستہ آہستہ نمایاں ہو کر رہے گی اور دل تلوار کی جگہ لے کر رہے گا ۔ علم وادب سے بھرپور شخصیت عیش شجاع آبادی کے احسانات اس قدر ہیں اس شہر پر کہ ان کے ادبی قرض کی ادائیگی کسی طور پر ممکن نہیں ہے اردو زبان و ادب کی خدمت کا عمل اور شعرو تشخص محفلوں کا وقار ان کے دم سے تھا ۔ا س شہر کی فضا ہمیشہ عیش کو یاد رکھے گی ۔
”دو عالم سے کرتی بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی “