نبیلہ شہزاد
پی ٹی آئی جس طرح پاکستانی سیاست کےافق پرخوب چھائی، گرجی،چمکی، برسی، اب اسی طرح عروج کے بعد زوال پذیربھی ہے۔ کل تک جو
لوگ پی ٹی آئی کا حصہ ہونے پرفخر محسوس کرتے تھے۔عمران خان پراپنی جان نچھاور کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ اسےاپنا غرورکہتے تھے اور کہتے تھے کہ اب چاہے جو مرضی ہو ہم تحریک انصاف سے الگ نہیں ہو سکتے۔ یہ پی ٹی آئی کے گلدان میں جمع ہونے والےلال، پیلے، ہرے، نیلے پھول مختلف سیاسی جماعتوں سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ 1992ء کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد اللہ تعالی نے عمران خان کو خاص عزت سے نوازا تھا۔ یہ شخص نوجوانوں کا آئیڈیل بن گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب اس نے اپنی والدہ کے نام پر کینسر ہسپتال کامنصوبہ شروع کیا تو پاکستانیوں نےاس کےسامنے دولت کے ڈھیر لگا دیئے۔
ملک یا ملک سے باہرجہاں کہیں بھی ہسپتال کے لئے ڈونیشن لینے کے لیے گیا پاکستانیوں نے دل کھول کر مدد کی۔ اس میں سکولوں کے بچے کالجوں، یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات بھی پیش پیش تھے۔ لوگوں نےاتنی زیادہ مدد کسی کی نہ اس سے پہلے کسی پروجیکٹ میں کی تھی نہ اس کے بعد۔اس کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کی اپنی ذات تھی کیونکہ لوگ عمران خان پر اعتماد کرتے تھے۔اس سے محبت کرتے تھےاوراسےعزت دیتے تھے۔اچھا بھلا مشہوراور عزت دار آدمی تھا پھر پتا نہیں اسے کیا سوجھا کہ پاکستان کی سیاست میں قدم رکھ دیا۔ یہ خود آیا یا لایا گیا اس بارے میں کوئی مستند معلومات نہیں ۔ بہرحال یہ تبدیلی کا نعرہ لےکرمیدان میں اترا۔کرکٹ کی وجہ سے یہ نوجوان طبقے کا پہلے سے ہی پسندیدہ تھا، اس لیے ملک کے نوجوانوں کا قافلہ اس کے پیچھے چل دیا۔
تحریک انصاف پاکستان کے نام پر بنائی گئی اس جماعت نےجلد ہی مقبولیت پکڑ لی۔ پہلی بار کے انتخابات میں ہی اس جماعت نے کافی اچھی کامیابی حاصل کی۔ پھروہ دن بھی آیا جب اس جماعت نے ملک کا اقتدار حاصل کیا۔ سونامی کےنعرے کے ساتھ یہ پورے ملک پرچھائے۔ بطور وزیراعظم عمران خان کی پہلی تقریر نے پوری قوم کے دل موہ لئےحتی کہ میرے جیسے کان کے کچے لوگ تو دلوں میں یہ امید لگا کر بیٹھ گئے کہ پاکستان اب سپرپاور بنےگا۔ روپیہ اپنی قدر میں ڈالر سے نہ بھی بڑھ سکا تو قریب قریب ضرور ہو جائے گا۔ پاکستان معیشت کے میدان میں اتنا مضبوط ہو جائے گا کہ جاپان اور روس کے لوگ بھی روزگار کے لئےپاکستان کا رخ کریں گےلیکن یہ بھول گئے کہ حکومت بے شک نئی ہے مگر پارٹی ارکان تقریباً سارے ہی پرانے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے ہاتھوں سے پہلےہی ملک تنزلی کا شکارہو چکا ہے۔کرسی اگرعمران خان کوپیاری ہے تواپوزیشن اقتدار کی کرسی کی اس سے بھی زیادہ شوقین تھی۔
انہوں نےعمران خان کے اقتدار کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی تحریک عدم اعتماد چلا دی اورعمران خان کو وزیراعظم کے عہدے سے اتار پھینک دیا، تحریک انصاف کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا لیکن پارٹی یونٹ قائم رہا۔ اب نومئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کے اراکین پارٹی سے ایسے الگ ہو رہے ہیں جیسے خزاں زدہ درخت کے زرد، سوکھے پتے جھڑنا شروع ہوجاتے ہیں اور آخر میں ٹنڈ منڈ درخت رہ جاتا ہے، یہی حال اس وقت عمران خان کا ہے۔سارے ساتھی ایک ایک کر کے چھوڑ رہے ہیں جن کے چھوڑ جانے کا عمران خان نے شاید کبھی گمان بھی نہ کیا ہو، جن میں شیریں مزاری، فردوس عاشق اعوان، خسروبختیار، علی زیدی، مرادراس، سینٹئر سیف اللہ نیازی،رابعہ اظہر، ابرار الحق، فواد چوہدری اوردیگر بھی شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر پریس کانفرنس کرکے عمران خان کے خلاف خوب بولے۔ مجھے اس بات پر حیرانی ہے کہ ان بیچاروں کو عمران خان کے یہ عیب اب ہی نظرکیوں آئے ، پہلےکیوں نہیں آئے جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ" یہ جبری طلاقیں دلوائی جارہی ہیں۔ میری پارٹی کے اراکین کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ہے"۔ اب یہ جبری طلاقیں ہیں یا بخوشی خلع، یہ سیاست کے گھن چکر والے ٹیڑھے میڑھے راستوں اور پیاز کی پرتوں کی طرح خفیہ در خفیہ معاملات کی ہمیں کیا سمجھ کیونکہ یہاں جو ہوتا ہے وہ نظر نہیں آتا اور جو نظر آرہا ہوتا ہے وہ اصل نہیں ہوتا ۔ اس لیے اس سارے معاملے میں خاموشی ہی بہتر ہے لیکن تجزیاتی نقطہ نظرمیں عمران خان نے جو دو بڑی سیاسی غلطیاں کی ہیں وہ یہ کہ جب عمران خان کوسیاسی میدان میں پذیرائی ملنا شروع ہوئی تو لوگ دوسری پارٹیوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر عمران خان کے قافلے میں شامل ہونے لگے۔ یہ دوسری پارٹیوں سےہجرت کرنے والے لوگ اپنے اپنے دور اقتدار میں کرپشن سے ہاتھ آلودہ کر چکے تھے۔
یہ چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے مطلبی لوگ تھے اسی لیےتو آج عمران خان کے زوال کے وقت سب دوڑ رہے ہیں اور عنقریب یہ لوگ کسی دوسری مقبولیت والی پارٹی میں شامل ہو جائیں گے، ان کے ساتھ عہد وفا کا اعلان کرتے نظر آئیں گے۔ اپنی پارٹی ٹکٹ دینے کے لیے عمران خان کو صاف ستھرے، مخلص لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے تھا جو اس کی پارٹی کے خیر خواہ بھی ہوتے اور ملک کے بھی۔ مشکل وقت میں چاہے جتنا مرضی دباؤ کا شکار ہوتے لیکن اسے چھوڑ کر نہ جاتے۔دوسری غلطی، اپنی قوم کو مایوس کیا۔
عمران خان واقعی لوگوں کے دلوں میں بستا تھا۔ جب عمران خان سیاست میں آیا تو عوام نے جو امیدیں اس سے وابستہ کرلیں وہ شاید آج تک پی ڈی ایم کے کسی بھی لیڈر سے وابستہ نہیں کیں۔ قدرت نے اسے بہترین موقع دیا تھا یہ اپنے دور اقتدار میں پاکستان اورعوام کے لئے کچھ خاص کرکے لوگوں کے دلوں میں امر ہو سکتا تھا۔ اس کی تو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی صرف بات نے لوگوں کو متاثر کرلیا تھا۔ اگر اقدامات کر لیتا تو لوگ آج اس کے صدقے واری جا رہے ہوتے ۔ کاش! عمران خان نے اپنے قریبی لوگوں کی کرپشن پر ان کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہوتا تو تاریخ کی کتابوں میں یہ ایمانداری کا استعارہ بن جاتا، آنے والا وقت اسے عظیم لیڈر کے طور پر یاد کرتا لیکن اس نے رب کا دیا ہوا موقع ضائع کر کے لوگوں کے دلوں سے اپنی محبت اور عزت سب کچھ ضائع کردیا۔
نوٹ :ایڈیٹر کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ( ادارہ رنگ نو )