نورالسحر اظہار
آج سے تین دہائی قبل شروع ہونےوالی بےضررسی پولیوٓمہم اتنی توانا اورمنہ زور ہوچکی ہےکہ اپنی بانہوں میں کرونا ویکسین بھی کھینچ لائی ہے۔۔۔۔گھر
گھر دو بچے خوشحال گھرانے کا سلوگن لئے پولیو مہم کی ٹیمیں لبوں پر مسکان سجائےبچوں کوقطرے پلاتیں اورمزاحم ہونے والے سرپرست کو سمجھاتیں کہ یہ آپ کے بچے کےلئے ضروری ہےعقل کے اندھوں کو پھر بھی سمجھ نہ آتی تو کال کوٹھری کی دھمکی نہ دی جاتی ساتھ ساتھ چھ چھ سات سات بچوں کی ماؤں کی صحت پرفکر مندی کا اظہار کرتیں اور بتاتیں کہ زیادہ بچے جیب پر بھاری ہوتے ہیں ۔نصیبوں پر قانع رہنے والی مستورات اولاد کو ایمان کا حصہ گردانتی اور اس موضوع پر گفتگو کرنا پسند نہ کرتیں تو ان کی صحت کو ہدف بنایاجاتا۔۔۔ یوں مستورات کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر ان کی توجہ حاصل کی جاتی انہیں بار بارحمل کے مراحل سے گزرنے کے نقصانات سےآگاہ کیا جاتا۔(یہ الگ بحث ہے کہ یہ ادویات گائنی مسائل کا سب سے بڑا سبب ہے)
مانع حمل کے مختلف ذرائع اختیار کرنے سے ان کی صحت اچھی رہ سکتی ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹرز اورمیڈیکل اسٹاف کا رویہ بڑا مشفقانہ ہوتا تھا۔ یوں دین سے بے بہرہ ذہن اس مہم کا شکار ہوئےاور بتدریج دو بچے خوشحال گھرانے کا نعرہ زبان زد عام ہوا۔۔۔ ذہنوں سے نبی مہربان کا یہ فرمان محوہوتا گیا کہ "روز محشر زیادہ بچے جنم دینے والی عورت میرے لئے باعث فخرہوں گی" تین دہائیوں کی محنت شاقہ آخر کار رنگ لائی اوربڑا گھرانہ ناپسندیدہ ٹھہرا۔۔۔مانع حمل کے مختلف ذرائع نے جہاں آبادی کو کنڑول کرنے کی کوشش کی ،وہیں جنسی بےراہ روی اور بےحیائی کو بھی فروغ دیا ۔۔۔اس سلسلے میں برقی و پرنٹ میڈیا کو خوب خوب استعمال کیا گیا۔۔۔آج ہماری روایات و اقدار پر مغربی چھاب نمایاں ہے۔۔ وطن عزیز میں عوام کی ' محبت ' میں شروع ہونے والا پولیو مہم " شدت"کے ساتھ جاری ہے۔ سوال ہوا پولیو کے مرض پر اتنی توجہ کیوں اور بھی غم ہیں اس کے سوا ۔۔۔۔جواب ملا اقوام متحدہ پاکستان کو پولیو فری ملک دیکھنے کا متمنی ہے ۔۔۔۔اگلے لمحے شام، عراق،افغانستان،فلسطین اور کشیمر کا بہتا لہو چیخ پڑا اقوام متحدہ کو تڑپتی، بلکتی ،سسکتی انسانیت کا نوحہ نظر نہیں آتا۔ ۔دل ناداں پھر سراپا احتجاج ہواپولیو کا مرض ہوتا کیوں ہے۔۔۔ جواب آیا نکاسی آب کے لئے بنائے گئے ناقص نظام سیوریج کی وجہ سے۔۔۔پھر تو قطرے پلانے کے لئے مارے مارے پھرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے بلدیاتی انتخابات اس کا حل ہے ۔۔ شہری حکومت کا ہی تو کام ہے شہر کو صاف ستھرا رکھنا۔۔گورنر سندھ کی چیخ سے شہر گونج اٹھا ۔ اےمرد مجاہد تم جتنا چاہو ہمیں برا بھلا کہو لیکن انتخابات کی بات نہ کرو۔۔۔
ہر ذی شعور پریشان کہ بچوں کی زندگیاں محفوظ بنانے کے لئے ہزار جتن کرنے والوں کو۔۔۔ڈینگی اور ملیریا کے مریضوں سے بھرے ہسپتال کیوں نظر نہیں آتےجہاں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔۔۔الخدمت نےجذبہ انسانیت کے تحت مچھر مار اسپرے مہم کا بھی آغاز کیا۔۔ اورحکومت سب اچھا ہے کا راگ الپ رہی ہے۔۔۔۔دل ودماغ تلاطم کی زد میں ہے کہ جس ملک میں طبی سہولیات ناپید۔۔۔ادویات مہنگی۔۔۔علاج مہنگا ۔۔۔۔ اور دل، جگر، گردے اور دیگر جسمانی بیماریوں کے امراض کی بھرمار یو ۔۔انہیں نظر انداز کرکے صرف پولیو اور کرونا کے ویکسین پر مکمل توجہ چہ معنی دارد ۔۔۔۔دفعتاً نظروں کے سامنے اقوام متحدہ کا مقصد نظر آیا۔۔۔2030 تک ہر صورت پوری دنیا میں جنسی بےراہ روی اور بے حیائی کا طوفان پرپا کرنے کے لئے ہر ملک میں ٹرانسجینڈر ایکٹ کو نافذ کرنا ہے۔ جس ادارے کا مقصد ہی انسانیت کو حیوانیت کے درجے پر لے جانا ہے۔۔۔۔ اس سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کرونا اور پولیو کی ویکسینیشن نیک بنیادوں پر مسلم ممالک کو فراہم کی جاتی ہے۔۔۔
جب کانوں سے یہ الفاظ ٹکراتے ہیں کہ کرونا کی ویکسین نہ کروانےوالے پر عرصہ حیات تنگ کردیا جائےگااورپولیو کی راہ میں مزاحم ہونےوالے سر پرست کا مقدر کال کوٹھری ہوگا تو نبی مہربان کا فرمان خبردار کرتا ہے کہ "جلد از جلد اعمال صالح اختیار کرلو ان فتنوں کے آنے سے پہلے جو اندھیری رات کے ٹکروں کی طرح یکے بعد دیگرے آئیں گے اسوقت آدمی اس حال میں صبح کرے گا کہ وہ ایمان والا ہوگا اور شام اس حال میں کرے گا کہ وہ ایمان سے محروم ہو چکا ہو گا دنیا کی حقیر متاع کے عوض وہ اپنا دین وایمان بیچ دے گا "
تو کیا پوری دنیا میں طاغوتی نظام کے قیام کے لئیے اسٹیج کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔۔۔
نوٹ: ایڈیٹرکا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ( ادارہ رنگ نو )