لبنیٰ اسد
مرد اورعورت سے متعلق جو تعلیمات قرآن کی شکل میں ہمارے پاس ہیں اس کی عملی تصویرنبی کریم صہ ہیں جو شخص رسول صہ کی تعلیمات
کو قرآن کے احکام سےالگ سمجھتا ہے،اس کامقام و مرتبہ ایمان سے گرا ہوا ہے۔ نبی صہ کے ہرفیصلے کو کشادہ دلی سے ماننا ہرمسلمان کی فرض ہے۔ اسلامی نظام حیات کا بنیادی نکتہ عدل ہےجبکہ اسلام مہذب معاشرے کے قیام کے لیے خاندان کو بنیادی ادارہ قراردیتا ہے اور اسلام میں شادی کا مقصد کمانے والی بیوی کا حصول نہیں بلکہ آٸندہ آنے والی نسلوں کی معماراور گھر کے اندر پرسکون اورمحبت کا ماحول فراہم کرنے والی بیوی کا حصول ہے۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب میں عورت ایک آبجیکٹ سےزیادہ مقام نہیں رکھتی ۔ وہ بھی ایسی شے جس کا استحصال کر کےمردانہ معاشرہ اپنےمقاصد میں استعمال کرے جبکہ اسلامی شریعت کے بنیاد عدل پرعورت کو ذاتی اور اجتماعی حیثیت میں یکساں حقوق حاصل ہیں اورقیام عدل کے لیےراستہ صرف قرآن سے براہ راست تعلق اور اس کی تعلیمات کا نفاذ ہے۔ اسلامی شریعت کی بنیاد نہ جنس کی تفریق ہے، نہ رنگ ونسل کی، نہ زبان کی، یہ وہ شریعت ہےجو قیامت تک کے لیے اصول حکمرانی ہے۔ مسلمان ڈیڑھ ارب سےزیادہ ہونے کےباوجود عالمی سطح پرصدیوں سےبے وقعت اوربے وزن ہیں۔ مغربی طاقتوں نے انہیں مظالم کا شکار بنا رکھا ہے۔ مسلمانوں کی تمام ترپستی کے باوجود اسلام اہل مغرب کے دل جیت رہا ہےجبکہ مغربی عورتوں میں قبول اسلام کے حیرت انگیز رحجانات کے اسباب دراصل یہ ہیں ۔
تیس ہزاربرطانوی عورتیں ہر سال حمل کے باعث روزگار سےمحروم ہوجاتی ہیں۔بیس فیصد بڑی کمپنیوں کی انتظامیہ میں عورتوں کا حصہ ہولناک حد تک کم بلکہ صفرہی ہے۔برطانیہ میں ہرسال سیکس انڈسٹری کو سالانہ چار ہزارعورتوں کی فراہمی کی جاتی ہےجبکہ بیرون ملک سے چوراسی فیصد خواتین لائی جاتی ہیں اور غیر قانونی طور پر خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔2011 میں بھی مظلوم عورتوں کو قانونی تحفظ نہ ملا اور گھروں میں بھی تشدد برقرار رہا۔
جبری شادیوں کا ہدف بننے والوں میں بچاسی فیصد عورتیں ہوتی ہیں ،ان کےلیےپالتو کتے پرتشدد قابل مذمت ہےمگر عورتوں پرنہیں ۔آبرو ریزی کے مجرموں کی سزا یابی کی شرح میں مسلسل کمی۔امریکہ میں یکساں کام کی اجرت مردوں سے تیتیس فیصد کم ہے۔شوہروں اور دوستوں کے ہاتھوں تشدد،
جیلوں میں بدسلوکی ، فوج کےاندرعورتوں میں جنسی حملےروز کامعمول ہیں جنسی زیادتی سےمتاثرہ عورتیں زندہ درگور ہوجاتی ہیں۔ان تمام وجوہات کی بناء پرمغرب میں اسلام حیرت انگیزطور پرمقبول ہورہا ہے، جبکہ مغرب کا خاندانی نظام کتنا ہی برباد ہوکم از کم معاشی طور پرعام آدمی بہت خوشحال ہو گیا ہے یہ بس ایک خام خیالی ہے ۔
اسلام بہترین انتخاب ہے۔ایون رڈ لےقرآن کی روشنی میں بتاتی ہیں کہ قرآن کا توجہ کےساتھ مطالعہ یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ مسلمان عورت کو 1400 سال پہلے تمام حقوق قرآن نے دے دیےاسلام میں عورت ہر طرح سے مرد کے برابرسمجھی جاتی ہے ۔
بچوں کی پیداٸش کوعورت کے لیے قابل قدرتحفہ اور ان کی پرورش کومثبت وصف کے طور پردیکھا جاتا ہےجبکہ مغربی عورت کو آزادی کے نام پر دھوکہ دیا گیا ہے ۔مسلم دنیا میں عورت کی بے چارگی کا تاثر درست نہیں ہے عورتوں پرظلم کی وجہ کلچر ہےاسلام نہیں۔
عورت کو شع محفل کے بجائے چراغ خانہ بنانے کی اسلامی تعلیم کی حکمتوں کااعتراف ڈاکٹرمیکاٶ کے ان الفاظ میں اس طرح ہے۔ مسلمان عورت کی سرگرمیوں کا محوراس کاگھر ہے۔یہ وہ آشیانہ ہے جہاں بچےجنم لیتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں ۔
جس علم کی تاثیر سےزن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
تحریک حقوق نسواں کی بنیادی غلطی عورت سےمرد بننےکامطالبہ ہےاور مغربی عورت سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کا شکار ہے۔ انسان زمین پر خلیفتہ اللہ بنا کربھیجا گیا ہےاور قرآن کی رو سے حضرت آدم و حواعلیہ السلام کی خطامعاف کر دی گئی ۔ قرآنی تعلیمات اسلامی معاشرے میں عورت کا احترام سکھاتی ہیں اسلام کی رو سے مرد و عورت مساوی ہیں یکساں نہیں اور جنت میں داخلے کا پیمانہ صنف نہیں ۔ عورت کو اسلام میں کام کرنے کا حق ہے اور مالی تحفظ بھی حاصل ہے۔ شادی عورت کا لازمی تحفہ ہے۔ بیوی سے جہیز کا مطالبہ اسلام میں ممنوع ہےماں،بہن اور بیٹی کے حقوق اسلام کا طرہ امتیاز ہےغرض یہ کہ اسلام پوری انسانیت کا دین ہے۔