عائشہ عبدالواسع
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اس دنیا میں تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی انہی پیغمبروں میں سے تھے جن کو تمام نبیوں
میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ ابراہیم علیہ السلام عراق میں پیدا ہوئے آپ کی والد کا نام آزر تھا۔ آپ کے والد پتھر اور لکڑی کے بت بنا کر بیچا کرتے تھے، جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے یہ سوال کیا کہ اپنے ہاتھ سے بنی ہوئی چیز کی پوجا کیوں کرتے ہیں؟ جس پر آذر نے جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت زیادہ غور و فکر کرتے تھے دل ماننے کو تیار نہیں تھا کہ بے جان بت ہمارے خدا کیسے ہو سکتے ہیں؟ اس طرح آپ نے آسمان پر تارا دیکھا۔ پھر چاند دیکھا اس کے بعد سورج دیکھامگر ایک مقررہ وقت کے بعد وہ ڈوب گئے تو دل نے پھر انکار کر دیا کہ ڈوبنے والی چیز رب نہیں ہو سکتی۔ اس لیے آپ علیہ السلام نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ لوگوں کو یہ بات سمجھائیں کہ یہ بت اور یہ ستارے، چاند، سورج کس کے کام نہیں آ سکتے ہیں ۔
ایک دفعہ آپ نے بتوں کو پاش پاش کرنے کا فیصلہ کیا اور تمام بتوں کو توڑ پھوڑ کر اپنا کلہاڑا بڑے بت کے پاس رکھ کر بڑے اطمینان سے گھر چلے گئے ،اس واقعے کی اطلاع سارے شہر میں پھیل گئی اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اس واقعے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ تم خود ہی ان سے پوچھ لو کہ یہ کام کس نے کیا ہے ،انہوں نے کہا کہ اے ابراہیم علیہ السلام کیا تمہیں عقل نہیں کہ ہمارے بت نہ کچھ یہ جانتے ہیں اور نہ کچھ بولتے ہیں اس کے جواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا میرا رب تو وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے۔ لوگوں نے یہ باتیں وقت کے بادشاہ نمرود کو بتائیں۔ نمرود اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا تھا اس نے سوچا کہ فوری طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اپنا رعب و دبدبہ ڈالتے ہوئے آپ کو سخت سزا دی جائے۔ اس کے لیے نمرود نے بہت بڑی آگ روشن کی اور جب نمرود کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ یہ آگ بہت زیادہ دہک گئی ہے اور اس میں ڈالے جانے کے بعد کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکتا۔ نمرود نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے ہی آگ میں گئے اللہ کے حکم سے آگ ٹھنڈی ہو گئی اور آپ باحفاظت آگ سے باہر نکل آئے ۔
" اے آگ ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا۔
سورۃ الانبیاء
اس واقعے کے بعد لوگ حیران ہو گئے کہ نعوذ باللہ آگ نے آپ کو بھسم کیوں نہیں کیا۔ ایمان لانے کے بجائے آپ کو اتنا تنگ کیا کہ آپ نےملک عراق چھوڑنےکا فیصلہ کر لیا، اس کے بعد آپ علیہ السلام اپنی بیوی اور بھتیجے لوط علیہ السلام کو لے کر شام اور فلسطین کی طرف روانہ ہو گئے۔ دین کی فروغ کے لیے جب آپ نے اللہ سے درخواست کی
" پروردگار مجھے نیک اور صالح اولاد عطا فرما"
اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول کی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسے بیٹے سے نوازا،ہرآزمائش پر اللّہ کےحکم سے آپ کامیاب رہے۔
ایک دفعہ پھر آزمائش کے ننھے اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کو بہت دور اور غیرآباد جگہ چھوڑ کر آؤ اور اللہ کا حکم سمجھ کر راضی ہو گئے اور اس مقام پر چھوڑا جو مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے ۔
ویران جگہ جہاں نہ کچھ کھانا تھا نہ پانی ۔
حضرت ہاجرہ علیہ السلام پانی کی تلاش میں دونوں پہاڑیوں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے لگی جہاں ننھے اسماعیل ریت پر لیٹے ہوئے پیردسے پیر مار رہے تھے کہ وہاں اللہ کی رحمت سے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا۔ پاکیزہ پانی کے اس چشمے کا نام زم زم ہے ۔یعنی ٹھہرو حج و عمرے کے درمیان۔ ان دونوں پہاڑیوں کے دوران دوڑنا سعی کہلاتا ہے جو حج اور عمرے کا ایک اہم رکن ہے کچھ عرصے کے بعد اس ویران جگہ پر ایک بستی قائم ہو گئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بوڑھے ہونے کے باوجود فرائض نبوت سرانجام دینے میں منہمک تھے، اس دوران حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر 13 سال تھی کہ حضرت ابراہیم کو ایک خواب نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں ،اس کا تذکرہ آپ نے اپنے بیٹے سے کیا تو بیٹے نے کہا کہ ابا جان اللہ تعالی ٰنے آپ کو جو حکم دیا ہے۔ آپ اسے پورا کریں انشاءاللہ آپ مجھے فرمانبرداروں میں شامل پائیں گے۔
حضرت ابراہیم اپنے بیٹے کو لے کر اللہ کی راہ میں قربانی کے لیے نکلے یہ وہ مقام ہے جواب منی کہلاتا ہے ،جہاں پر تین بار اپ کو شیطان نے بہکانے کی کوشش کی اور تینوں دفعہ اپ نے کنکر مار کر بھگا دیا۔ حج کے موقع پر ہر سال حاجی اس عمل کو دہراتےہیں، جسے رمی جمرات کہتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جیسے ہی حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منہ کے بل لٹایا اور گلے پر چھری چلائی تو اللہ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ایک مینڈھا بھیج دیا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربان کر دیا۔ اللہ تعالی نے آپ کے اس عمل کو اتنا پسند کیا کہ قیامت تک آنے والے صاحب حیثیت مسلمانوں کے لیے اسے سنت قرار دے دیا اور اس دن کو عید الاضحی ٰکے نام سے منسوب کر دیا۔یہ وہی عید الاضحی ہے ،جس موقع پر دنیا کے کونے کونے میں موجود مسلمان ہر سال لاکھوں جانور قربان کرتے ہیں اور سنت ابراہیمی علیہ السلام کو زندہ کرتے ہیں۔ قربانی کے اس سنت کا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے عہد کریں کہ اللہ تعالی کے راستے میں ہم ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار رہیں گے۔