اُمِّ ابراہیم
اللہ رب العزت نے انسان کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ انسان ان نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتا۔یہ ایک بہت ہی عام اور منفی رویہ پایا جاتا ہے
کہ انسان ہر وقت انہی چیزوں کو سوچتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے اور انہیں نظر انداز کر دیتا ہے جو بے بہا نعمتیں اللہ نے اسے بن مانگے عطا کی ہوتی ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم اپنی محرومیوں اور خواہشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ بنا لیتے ہیں ۔بس انہی کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور پھر مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ پریشانیوں اور مصیبتوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن نعمتوں، ٹل جانے والی بلاؤں اور آسانی میں بدل جانے والی مشکلات کا تذکرہ نہیں کرتے۔
یہی ہماری زندگی کے ” بلیک ہولز “ اور ”منفی رویے“ ہیں جنہیں زندگی سےنکال پھینکنے کی ضرورت ہے کیونکہ انہوں نے ہماری زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نگل لیا ہے۔ ہمیں اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم ان نعمتوں کا تذکرہ کرتے رہیں۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہم خود بھی نعمتوں کا ذکر نہیں کرتے اور اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ ”یک نہ شد دو شد” کے مصداق دوسروں کو بھی ان کی محرومیاں، کمیاں اور خامیاں گنواتے رہتے ہیں اور انہیں ”احساس تشکر“ کی بجائے ”احساس محرومی“ اور ”احساس کمتری“ میں مبتلا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم رشتوں کے معاملے میں کرتے ہیں،اگر کوئی انسان اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو انجام دے رہا ہو اور بحیثیت انسان کبھی کسی مقام پر اس سے کوئی چوک ہو جائے یا ذرا سی کوتاہی پرہم کیا کرتے ہیں؟؟؟؟
ہم اس کا حوصلہ دینے یا اس کی دلجوئی کرنے کی بجائے اس کی تمام تر کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے، اسی کی ایک ”غلطی جو اس سے سرزد“ ہوئی اس”غلطی“ کو یاد کرتے اور کراتے رہتے ہیں کہ اسے ایک ناکارہ انسان ثابت کر کے چھوڑتے ہیں۔
" میری تو قسمت ہی خراب ہے"۔
"مجھے پتہ تھا تم نہیں کر سکو گے"۔
"تم ہمیشہ غلط کرتے ہو"۔
"مجھے تو کوئی امید نظر نہیں آتی"۔
"پاکستان میں کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا"۔
"یہ پاکستان ہے بھئی، یہاں سب چلتا ہے"۔
یہ ایسے منفی جملے ہیں جنہیں ہم گھر میں، دفتر میں، سفر کرتے ہوئے یا دوستوں کی محفل میں اکثر سنتے ہیں۔ کوئی مثبت بات، کام یا خبر ہماری اس طرح توجہ حاصل نہیں کر پاتی جتنا ہم منفی باتوں یا رویوں پر دھیان دیتے ہیں۔ مثبت اور امید بھری باتیں ہمیں جلد ہی ”بور“ کرنے لگتی ہیں۔ ایک دوسرے کے متعلق مثبت بات کرنا شکست کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ہم دوسروں کے کردار کو انتہائی باریک چھاننی سے چھانتے ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی کمزوری بھی ہماری نظروں سے بچ نہیں پاتی۔ انہی منفی رویوں نے ہماری زندگی میں زہر گھول دیا ہے۔ ہر انسان اپنی یا دوسروں کی وجہ سے رب کی دی ہوئی نعمتوں کو بھلا کر ہر وقت پریشان،دکھی اور شکوہ کناں نظر آتا ہے۔ مثبت سوچنا اور مثبت رائے کا اظہار کرنا ایک عادت ہے اور عادت بنانے کے لیے روزانہ اس کی مشق کی ضرورت ہوتی ہے۔
آئیں! اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھریں۔منفی سوچ اور رویوں سے دور رہیں اور اپنی زندگیوں کو زنگ آلود ہونے سے بچائیں۔ موجودہ لمحات کا لطف اٹھائیں جو نعمتیں آپ کے پاس ہیں ان کو یاد کریں اور اللہ کا شکر ادا کریں۔ ماضی کی غلطیوں اور مستقبل کے خوف سے متعلق سوچنا چھوڑ دیں۔
ایسا نہیں ہے کہ منفی خیالات آنا رک جاتے ہیں لیکن مثبت لوگ منفی خیالات کو بھی ایک تحریک کے طور پر لیتے ہیں اور دماغ پہ سوار کرنے کی بجائے مسائل کا حل نکالتے ہیں۔ جب بھی منفی خیالات آئیں یا لوگوں کے منفی رویے آپ کی دل آزاری کریں تو اپنی زندگی میں مثبت چیزوں اور انعامات الٰہی کو یاد کریں اور اس کا شکر بجا لائیں۔